کیا کانگریس اپنی مسلسل شکست سے کوئی سبق لے گی؟

ملک کی پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج تقریباً صاف ہو گئے ہیں۔
ملک کی پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج تقریباً صاف ہو گئے ہیں۔ پڈوچیری کو چھوڑ کر اگر دیگر چارریاستوں کے نتائج کو ایک جملے میں سمیٹا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس کا سوپڑا صاف ہو گیا ہے۔ دو ریاستوں میں جہاں اس کی اقتدار چلی گئی ہے، وہیں تمل ناڈو میں ڈی ایم کے کے ساتھ مل کر اقتدار میں واپسی کا اس کا منصوبہ بھی ناکام ہو گیا ہے۔ یقیناً ان ریاستوں کے انتخابات کے نتائج کے درمیان یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا واقعی پورے ملک سے کانگریس کی حکومتیں اکھڑ رہی ہیں؟ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ کبھی ملک بھر میں حکومت کرنے والی ملک کی سب سے پرانی اور بڑی پارٹی کانگریس کے لئے ہندستانی سیاست میں یہ بدترین دور چل رہا ہے۔
ایک طویل عرصہ تک ملک بھر میں حکومت کرنے والی اس پارٹی نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں جس قدر خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اس سے پورا ملک حیرت میں پڑ گیا۔ محض 45 سیٹوں پر سمٹ چکی کانگریس کے لئے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا لیڈر بننے کا موقع بھی شرمندگی والا رہا۔ کبھی پورے اپوزیشن کو چند گنتی میں سمٹا دینے والی اس پارٹی کو اپوزیشن کا درجہ بھی نہیں مل سکا۔ یہی وجہ ہے کہ آج لوک سبھا میں اس کا کوئی وزن نہیں رہا ہے۔ اب ملک کے عوام پر اس کی گرفت مسلسل کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
ادھر، لوک سبھا انتخابات کے بعد ہی ہوئے چار ریاستوں کے انتخابات، مہاراشٹر، جھارکھنڈ، ہریانہ، راجستھان اور جموں وکشمیر میں پارٹی کی شرمناک شکست بہت ہی سوچنے والی رہی ہے۔ نہ صرف پارٹی تنظیمی سطح پر بکھری دکھائی دے رہی ہے، بلکہ لوک سبھا انتخابات کے بعد تو پارٹی کی اعلی قیادت سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو لے کر بھی پارٹی کے اندر سے ہی مخالفت کے سر اٹھے۔ دو ہزار پندرہ کے اوائل میں ہوئے دہلی اسمبلی انتخابات میں تو وہ کھاتہ تک نہیں کھول سکی تھی۔ دہلی کہ جہاں اس نے مسلسل پندرہ برسوں تک بلاشرکت غیرے حکومت کی، اسے اسمبلی کی ستر سیٹوں میں سے ایک سیٹ بھی نہ ملنا واقعی اس کے لئے کبھی نہ بھول پانے والے کسی سنگین صدمہ سے کم نہیں تھا۔ حالانکہ ابھی دہلی میں ہوئے میونسپل کارپوریشن کے ضمنی انتخابات میں جب اسے تیرہ میں سے چار سیٹیں ملیں، تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ پارٹی لیڈران کے بول اور لہجے بدل گئے اور انہوں نے اسے کانگریس کی ایک بار پھر بڑھتی مقبولیت سے تعبیر کیا ۔ لیکن اب پانچ ریاستوں کے انتخابات کے نتائج نے ایک بار پھر ان لیڈران کی بولتی بند کر دئیے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کانگریس جو اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے، جو گزشتہ دو برسوں سے شکست در شکست کا منھ دیکھتے چلی آ رہی ہے، کیا اب وہ اپنی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی کرے گی؟ کیا وہ اپنی غلطیوں سے کوئی سبق لے گی؟ جنوری دو ہزار سولہ میں جے پور میں منعقدہ لٹریری فیسٹیول میں اپنی تصنیف کردہ کتاب کے اجرا کے موقع پر کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا تھا کہ کانگریس کو اپنی غلطیوں کا احتساب کرنا چاہئے اورہ یہ غلطیاں کہاں کہاں ہوئیں اور انہیں کیسے سدھارا جا سکتا ہے اس پر پارٹی کو بہت زیادہ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ اسی کے ساتھ کانگریس لیڈر نے یہ بھی کہا تھا کہ نہ صرف کانگریس بلکہ دنیا بھر میں جس بھی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس نے اپنی قیادت کے ڈھانچہ میں تبدیلی کی ہے اور پرانی غلطیوں سے سبق لیا ہے اور کانگریس بھی یہی کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کانگریس نے پرانی غلطیوں سے سبق لیا ہے تو پھر بالآخر اسے یہ مسلسل برے دن دیکھنے کیوں پڑ رہے ہیں۔
ایک عرصہ پہلے راجستھان میں سردار شہر سے کانگریس کے ممبر اسمبلی بھنور لال شرما نے تو راہل گاندھی کو لے کر بالواسطہ طور پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی پر لیڈر مسلط نہیں کیا جانا چاہئے، بلکہ جمہوری طریقے سے لیڈر کا انتخاب ہونا چاہئے۔ وہیں دوسری طرف کیرالہ کے سابق کانگریسی وزیر ٹی ایچ مصطفی نے تو انہیں 'جوکر' تک کہہ دیا تھا۔ مصطفی نے سیدھے لفظوں میں کہا تھا کہ راہل اگر عہدہ نہیں چھوڑتے تو انہیں ہٹا دیا جانا چاہئے۔ ظاہر ہے ، ایک طرف جہاں پورے ملک میں کانگریس کو لے کر سوال اٹھے، وہیں انہیں انتہائی آسانی سے اسے دبا بھی دیا گیا۔ اسی طرح کانگریس میں ہمیشہ یہ رجحان بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ پارٹی کی جیت پر جیت کا سہرا پارٹی اعلیٰ کمان کے سر باندھا جاتا ہے جبکہ شکست کی صورت میں اس کی ذمہ داری اجتماعی طور پر لی جاتی ہے۔ آج بھی کانگریس کا بیان کچھ اسی طرح آیا ہے۔ اپنی شکست قبول کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر پی سی چاکو نے پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی کے بچاو کی کوشش بھی شروع کر دی ہے۔ چاکو نے کہا کہ راہل گاندھی شکست کے لئے قصور وار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی انتخابات میں حکمت عملی بنانے کی ذمہ داری ریاستی حکومت کی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کانگریس بالآخر یہ دوہرا رویہ کب تک اختیار کرتی رہے گی اور کیا پارٹی کو شکست کی ذمہ داری طے نہیں کرنی چاہئے؟
ادھر، کیرالہ، آسام، مغربی بنگال، تمل ناڈو اور پوڈیچری میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے آنے والے نتائج میں کانگریس کی شکست کے اشارے مل رہے ہیں، ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کانگریس کی سرکار کیا ملک کی تمام ریاستوں سے ایک ایک کر کے اکھڑتی جائے گی؟ کیا تنظیم کی سطح پر پارٹی میں نظر آنے والا انتشارخطرناک نہیں ہے۔ ابھی تک کے رجحانات سے صاف ہے کہ کانگریس نے کیرالہ اور آسام جیسی دو اہم ریاستوں میں اپنی حکومت گنوا دی ہے۔ مغربی بنگال میں لیفٹ کے ساتھ کیا گیا اس کا اتحاد کام نہیں آیا اور وہاں ممتا بنرجی کا جادو پھر سر چڑھ کر بولا۔ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے کے ساتھ کانگریس کے اتحاد کو بھی عوام نے مسترد کردیا۔
کانگریس کو امید تھی کہ وہ لیفٹ اور ڈی ایم کے کے ساتھ اتحاد کر اپنی نیا اسی طرح پار لگا لے گی جیسا اس نے بہار میں کیا تھا لیکن ان دونوں ریاستوں میں اس کا داو الٹا پڑ گیا۔ کانگریس اب ملک کے سیاسی نقطہ نظر سے واحد اہم ریاست کرناٹک کے اقتدار میں ہی موجود ہے۔ تاہم اس کے حصے میں ہماچل اور اتراکھنڈ جیسی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں، لیکن سیاسی اعتبار سے ملکی سطح پران کی اہمیت کافی کم ہے۔ 5 ریاستوں کے انتخابات میں کانگریس کو سب سے زیادہ نقصان آسام، تمل ناڈو اور کیرالہ میں ہوا مانا جا رہا ہے۔ آسام میں پارٹی نے 15 سال کی حکومت گنوا دی تو کیرالہ اور تمل ناڈو میں اس کو منہ کی کھانی پڑی۔ نتائج سے صاف ہے کہ عوام ابھی تک کانگریس کی بدعنوانی کو بھول نہیں پائے ہیں۔