سید بلال نورانی کہتے ہیں کہ ماضی کے زخموں کو کریدنے سے بہتر ہے کہ کچھ ایسے کام کئے جائیں جس سے اوقاف املاک کے ذریعے سماج کے غریب اور بے سہارا لوگوں کے حال کو سدھار کر ان کے مستقبل کو مستحکم کیا جاسکے۔
اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر جاوید مسرت نے ملک کی آزادی کی روشن اور سنہری تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں یومِ جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے اس کی اہمیت اور افادیت کا بھی علم ہونا چاہئے ۔
اتر پردیش اردو اکادمی کے چئرمین چوہدری کیف الوریٰ کہتے ہیں کہ انعامات سے جہاں ایک طرف قلمکاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے وہیں دوسری جانب زبان و ادب کی ترقی کے راستے بھی ہموار ہوتے ہیں ۔
زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اقلیتی زبوں حالی کے اسباب پر مختلف آراءرکھتے ہیں لیکن یہ ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ہے کہ بغیر تعلیمی استحکام کے زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی ممکن نہیں۔
Lucknow News: راجناتھ سنگھ نے کہا کہ پروفیسر سید وسیم اختر نے تعلیم کے میدان میں جو خدمات انجام دی ہیں، وہ بہت اہم ہیں ۔ موجودہ عہد میں صرف لڑکے ہی نہیں بلکہ لڑکیاں بھی ہر میدان ہر شعبے میں آگے بڑھ رہی ہیں ۔
علامہ اقبال نے کہا تھا “قوتِ فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے- پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے۔ ہندوستان میں سب سے بڑی اقلیت کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کی قوت فکر و عمل واقعی فنا ہورہی ہے۔
انٹیگرل ہاسپٹل کی جانب سے منظم کئے گئے کیمپ اور اسٹال کے ذریعے نہ صرف مریضوں کا مفت معیاری اور تسلی بخش چیک اپ ہوا بلکہ انہیں مفت دوائیں بھی تقسیم کی گئیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے معاشرے کے ان اہم لوگوں کے نقشِ قدم پر چلا جائے جنہوں نے ہمارے سامنے غیر معمولی مثالیں قائم کرکے نئی نسل کا مستقبل سنوارنے کی کوشش کی ہے۔
ماہرین تعلیم کے مطابق بیشتر طلبا و طالبات میں غیرمعمولینصلاحیتیں پوشیدہ ہوتی ہیں اچھے اساتذہ ان کو پہچان کر سامنے لانے اور انہیں نکھارنے کا کام کرتے ہیں۔
UP News: اہم دانش گاہوں سے منسلک دانشور اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ صرف تعلیمی محاذ پر نہیں بلکہ مختلف سمتوں اور مورچوں پر کام کرکے سماج کے کمزور طبقے کے حالات بہتر کئے جاسکتے ہیں ۔
حکومت اتر پردیش کے وزیر برائے اقلیتی امور دانش آزاد انصاری کے مطابق موجودہ حکومت تعلیمی اداروں بالخصوص اقلیتی تعلیمی اداروں کی فلاح و بہبود اور استحکام کے لیے سنجیدہ ہے۔
Lucknow News: گزشتہ شب لکھنئو اور کشمیر کی مشترکہ تہذیب کی آخری شمع بھی گل ہوگئی ۔ یعنی معروف سماجی ادبی اور تعلیمی کارکن طاہرہ رضوی نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ۔ ان کے انتقال سے لکھنئو اور قرب جوار میں صفِ ماتم بچھ گئی ۔
لکھنئو کا حال ماضی سے بہت مختلف ہے اور تبدیلیاں کسی ایک سطح پر نہیں بلکہ مختلف محاذوں اور میدانوں میں واقع ہوئی ہیں۔ بات چاہے زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کے حوالے سے کی جائے یا پھر فنون لطیفہ اور تاریخی عمارات واقدار کے حوالے سے۔
صرف سرکاری و نیم سرکاری اداروں پر تنقید کرنے اور خود کو قسمت کے ہاتھوں پر جوڑ دینے سے حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہو جائیں گے۔
اگر سائنس اور تحقیق کے میدان سے منسلک طلبا وطالبات کو بنیادی اور ضروری سہولیات و مراعات فراہم کردی جائیں تو مستقبل میں ملک کو عظیم سائنسداں مل سکتے ہیں۔
شبھمن گل نے 15 دنوں میں کیا بڑا کارنامہ، پہلے ڈبل سنچری اور اب ٹی 20 سنچری بنائی
ماں بننے کے بعد کیا عالیہ بھٹ کریئر سے لیں گی بریک، اداکارہ نے خود کیا یہ بڑا انکشاف
اداکارہ چاہت کھنہ نے اب شیئر کردی ایسی تصویر، انٹرنیٹ پر مچ گیا تہلکہ، دیکھئے وائرل فوٹوز