لو جہاد کے تعلق سے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے مسلسل بیانات اور احکامات اور ان احکامات کی روشنی میں وزارتِ داخلہ کے ذریعے لو جہاد کے لئے بنائے جارہے قانونی مسودے کو محکمہ قانون و انصاف کو بھیجے جانے پر سماج میں بے چینی محسوس کی جارہی ہے۔
اتر پردیش میں لکھنئو سے پورے مغربی اور مشرقی اتر پردیش میں عوامی رابطے کرنے والے صلاح الدین مسّن کی آواز پر سبھی کمزور طبقوں کے ہزاروں لوگوں کا جمع ہوجانا یہ ثابت کررہا ہے کہ صلاح الدین بی ایس پی کے کھوئے ہوئے وقار اور اقتدار کی راہیں ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اترپردیش پر بہار الیکشن کے اثرات کس حد تک مرتب ہوں گے یہ تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا لیکن سیاسی جماعتوں کے مابین رسہ کشی اور بیان بازی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کسی بھی جماعت کے لئے اس بار اقتدار کی راہ آسان نہیں۔
یوپی میں سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹی کے مابین بڑھتے فاصلوں نے جہاں ایک طرف بر سر اقتدار بی جے پی کی اہمیت کو واضح کیا ہے وہیں کانگریس کے استحکام کے اشارے بھی دے دیے ہیں۔ اس عجیب اور غیر یقینی سیاسی صورت حال میں حاشیے پر زندگی گزار رہی سب سے بڑی اقلیت کے سامنے سب سے زیادہ مسائل ہیں اور مسائل کا حل بظاہر کسی کے پاس نہیں ہے۔
بلال نورانی اور چندر شیکھر کی نوئیڈا اور دہرہ دون میں ایک ماہ کے دوران ہوئی دو ملاقاتوں نے صرف بہوجن سماج پارٹی ہی نہیں بلکہ سماج وادی پارٹی اور بی جے پی کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
معروف سماجی کارکن نائش حسن کہتی ہیں کہ آبرو ریزی کی شکایتیں اور بچیوں کا قتل ریاست اتر پردیش میں معمولی بات ہو گئی ہے۔ حکومت کے اشارے اور سیاسی آقاؤں کے حکم پر کام کرنے والی پولس کے پاس انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ اتر پردیش میں پولس کا مطلب اب لوگوں کو انصاف دلانا نہیں بلکہ سرکار کے اشارے پر بے قصور لوگوں کو مجرم بنانا اور اصل مجرموں کو چھپانا ہے۔
حکومت کی ایما اور اشارے پر عوام پر پولس کے بڑھتے مظالم ، ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کے خلاف جارحانہ رویے اور جرائم کے بڑھتے گراف کے ساتھ ہی اب صحافی بھی مستقل عتاب کا شکار ہورہے ہیں۔ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ سوال کرنے کا حق کیوں چھینا جارہاہے۔
لکھنئو کے تاریخی امام باڑوں میں مجالس و ماتم کے اہتمام کو لے کر ایک بار پھر مذہبی قیادت کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔ معروف عالم دین مولانا کلب جواد نے تین روز قبل اچانک یہ اعلان کردیا کہ ایک منصوبہ بند سازش اور متعصبانہ رویوں کے پیش نظر ضلع انتظامیہ نے تاریخی آصفی امام باڑے اور چھوٹے امام باڑے کو سیاحوں کے لئے کھول دیا لیکن مجلس و ماتم کی اجازت نہیں دی گئی جس سے شیعہ طبقے کے لوگوں میں ناراضگی ہے۔
مجلس علماء ہند کے جنرل سکریٹری معروف عالم دین مولانا کلب جواد نے کہا کہ کافی عرصے سے ہمارے لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ ان کے آئینی دستوری سماجی اور مذہبی حقوق نہیں مل رہے ہیں ۔
اردو زبان و ادب کے اہم مرکز میں بھی اردو اپنے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ اردو کتب فروش دوسرے کسی ذریعہءِ معاش کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ لکھنئو کے تاریخی “دانش محل “ کے مالک محمد نعیم کی گفتگو سنُ کر احساس ہوتا ہے کہ واقعی اردو کتب فروشوں کی حالت کتنی خراب ہے۔
سندیپ پانڈے یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے بڑا نقصان سرکار کی “ٹھوک دو” نیتی سے ہوا ہے۔ یہ ایسا نظریہ ہے جس نے آئین و قانون کی پامالی کے راستے بھی ہموار کئے ہیں اور جرائم کو بھی فروغ دیا ہے۔
ایس رضوان کے مطابق وظائف کی ادائیگی کا معاملہ اکادمی کی جانب سے نہیں بلکہ ڈاک نظام کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔ بیشتر ڈاک واپس آگئی ہے جسے دوبارہ بھیجنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
طاہرہ کہتی ہیں کہ اتر پردیش میں جرائم کے بڑھتے گراف نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دئے ہیں۔ خواتین عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں۔ لڑکیوں کی آبروریزی اور اغوا کے معاملے عام ہیں۔ شہروں کے ساتھ ساتھ مضافات و دیہات میں بھی صورتحال نہایت تشویش ناک ہے۔
عامر صابری کہتے ہیں کہ پولس کے اہلکار و افسران نیچے سے اوپر تک ایک ہی رنگ میں رنگے ہیں۔ کورونا لاک ڈاون کے دوران ان کے اخبار اور میگزین کے دفتر پر قبضہ ہوجانا ، جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنا اور شکایت درج کرانے پر پولس کے ذریعے کوئی مناسب کارروائی نہ کرنا واضح کرتا ہے کہ اتر پردیش میں اب شریف لوگوں کے لئے ذہن و زمین تنگ ہوچکی ہے۔
بابری مسجد ، رام جنم بھومی کے تاریخی مقدمے کے فیصلے کے بعد مسجد کے عوض ایودھیاکے باہر دھنی پور میں ملنے والی پانچ ایکڑ زمین پر تعمیرات کو لے کر مختلف رائے سامنے آرہی ہیں۔
رشمی دیسائی نے Las Vegas سے شیئر کی تصاویر، ہاٹ پنک ڈریس میں آئیں نظر
Pakistan: ہر ہفتے دلہن بن کر تیار ہوتی ہے یہ خاتون، 16سال سے چل رہا ہے عجیب و غریب سلسلہ!
سفید منی اسکرٹ میں Monalisa کا یہ اوتار کیا آپ نے دیکھا، سوشل میڈیا پر وائرل تصاویر