اپنا ضلع منتخب کریں۔

    کرناٹک میں کم عمر کی شادی کا رواج، لڑکیوں میں تعلیم کے فقدان کا سبب، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ جاری

    کم عمر میں شادی جرم ہے۔

    کم عمر میں شادی جرم ہے۔

    Child Marriage in Karnataka: کم عمری کی شادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس سے زندگی بھر کے لیے بچوں پر جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کرناٹک ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں کم عمری کی شادیوں کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔ بالخصوص شمالی کرناٹک میں بچپن کی شادی کا رواج عام ہے۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Karnataka | Mumbai
    • Share this:
      Child Marriage in Karnataka: نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (National Crime Records Bureau) 2021 کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کرناٹک میں بچوں کی شادی کی ممانعت کے قانون (PCMA) کے تحت سب سے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ سال 2006 میں 273 ایسے واقعات درج کیے گئے ہیں۔ جو بہت کم رپورٹ شدہ اعداد و شمار کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 4 اور نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 کے اعداد و شمار کے موازنہ سے پتہ چلتا ہے کہ 2020 میں 184 سے کم عمری کی شادی کے واقعات کی رپورٹنگ میں 48.3 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
      اس کے علاوہ یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے لڑکیوں کو اسکولوں سے دور رکھنے، انہیں بچپن میں شادی اور کم عمری میں زچگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے 1.5 ملین اسکولوں کی بندش اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن نے وبائی دور کے دوران ہندوستان میں ایلیمنٹری اور سیکنڈری اسکولوں میں داخلہ لینے والے 247 ملین بچوں کو متاثر کیا ہے۔

      بچوں کی اس بڑی تعداد کا اسکول سے باہر ہونا ان کے کمزور ہونے اور بچپن کی شادی اور کم عمری میں زچگی پر مجبور ہونے کا نمایاں طور پر زیادہ خطرہ پیش کرتا ہے۔ کم عمری کی شادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس سے زندگی بھر کے لیے بچوں پر جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کرناٹک ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں کم عمری کی شادیوں کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔ بالخصوص شمالی کرناٹک میں بچپن کی شادی کا رواج عام ہے۔

      لڑکیوں کو کم عمری کی شادی کے چنگل سے بچانے کے لیے تعلیم اور کم عمری کی شادی کے درمیان گہرے ربط پر مزید غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں چار دہائیوں پرانی بچوں کے حقوق کی تنظیم چائلڈ رائٹس اینڈ یو (CRY) نے 'امپیکٹ آف ایکسیس' کے عنوان سے ایک دن بھر کی مشاورت کا اہتمام کیا۔ جس کا عنوان ’’لڑکیوں کی تعلیم ۔۔۔۔ بچوں کی شادی کے تناظر میں‘‘ تھا۔

      بیلگام ضلع کے چکوڈی تعلقہ میں سی آر وائی (CRY) کے آپریشنل علاقے میں سے ایک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے دو سال 2020 سے 2022 کے دوران 14 گاؤں میں 157 سے زیادہ بچپن کی شادیاں ہوئیں۔ یہ تمام بچیوں نے کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے 2020 سے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ انھیں اپنا بچپن کھونے کے اس ذلت آمیز انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ بیلگاوی میں 44.2 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال سے کم عمر میں ہو رہی ہے۔

      یہ بھی پڑھیں: 

      پاکستانی نیوز چینل چھپا رہے ہیں اس ملٹی نیشنل کمپنی میں ریپ کا واقعہ؟ ہانیہ عامر نے اٹھائی آواز

      بیلگاوی ان اضلاع میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کی شرح زیادہ ہے۔ اسی طرح دیگر علاقہ جات باگل کوٹ (47.5 فیصد) اور کوپل (44.7 فیصد) کے ساتھ۔ بیلگاوی کے ضلع سطح کے ہاؤس ہولڈ سروے کے مطابق 17 فیصد خواتین 15 تا 19 سال کی عمر میں حاملہ ہو رہی ہیں۔
      یہ بھی پڑھیں: 

      Flipkart: اب فلپ کارٹ پر ہوٹل بکنگ سروس کا بھی آغاز، تہواروں کے موقع پر ملے گی سہولت

      لڑکیوں پر بچپن کی شادی کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے چائلڈ رائٹس اینڈ یو کے علاقائی ڈائریکٹر اور ڈیولپمنٹ سپورٹ (ساؤتھ) جان رابرٹس نے کہا کہ بچوں کی شادی ہندوستان میں لڑکیوں کے وقار کو یقینی بنانے کے لیے ایک سنگین خطرہ بنی ہوئی ہے۔ ایک نامناسب عمر میں شادی کرنا لڑکیوں کے ساتھ ظلم کرنے کے برابر ہے۔ اس سے پہلے کہ بچے جسمانی، ذہنی اور جذباتی طور پر اس کے لیے تیار ہو جائیں، اس سے قبل شادی کرنا بچوں کو ان کا بچپن چھین لینے کے برابر ہے اور انھیں ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیتے ہیں، جن کے وہ حقدار ہیں۔
      Published by:Mohammad Rahman Pasha
      First published: