اپنا ضلع منتخب کریں۔

    اقلیتی مسائل و حصولِ تعلیم: بغیر تعلیمی استحکام کے زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی ممکن نہیں

    زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اقلیتی زبوں حالی کے اسباب پر مختلف آراءرکھتے ہیں لیکن یہ ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ہے کہ بغیر تعلیمی استحکام کے زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی ممکن نہیں۔

    زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اقلیتی زبوں حالی کے اسباب پر مختلف آراءرکھتے ہیں لیکن یہ ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ہے کہ بغیر تعلیمی استحکام کے زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی ممکن نہیں۔

    زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اقلیتی زبوں حالی کے اسباب پر مختلف آراءرکھتے ہیں لیکن یہ ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ہے کہ بغیر تعلیمی استحکام کے زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی ممکن نہیں۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Lucknow, India
    • Share this:
    لکھنئو۔۔ موجودہ حالات میں اگر ایک منصوبہ بند حکمت عملی وضع کرکے نئی نسل کو حصولِ تعلیم کے لیے بیدار نہیں کیا گیا تو اقلیتوں بالخصوص ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے لئے عزت و وقار کی زندگی بسر کرنا ایک مسئلہ بن جائے گا ، حالانکہ یہ سوال تو ابھی بھی در پیش ہے کہ کیا ہندوستان میں اقلیتیں خاص طور پر مسلمان عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔  ان خیالات کا اظہار معروف ماہر تعلیم دانشور اور اہم سماجی خدمت گار پروفیسر سید وسیم اختر نے کیا ۔ سابق ضلع جج بدر الدجیٰ نقوی کہتے ہیں کہ اب سماج کے اہم لوگوں کو ملک کے موجودہ نظام کے پس منظر میں یہ کہ کہنے اور اعتراف کرنے میں ذرا بھی تکلف نہیں ہونا چاہئے کہ مسلم طبقے نے اپنا وہ وقار و معیار کھو دیا ہے جس پر صرف اسے ہی نہیں بلکہ دوسرے قوموں کو بھی ناز تھا۔

    آج ہر محاذ پر پسپا ہوتی ملت اسلامیہ کے لئے لمحہءِ فکریہ ہے کہ آخر ایسے کون سے اسباب ہیں جنکی وجہ سے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلام مخالف طاقتوں نے پوری شدت اور توانائی سے سر اٹھا لیا ہے اور اس کے رد عمل میں بیشتر اسلامک ممالک ایک دوسرے کی تباہی و بربادی کے خاموش گواہ بنے ہوئے ہیں۔

    معروف ملی و سیاسی رہنما ڈاکٹر یٰسین عثمانی کہتے ہیں کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران بلکہ یوں کہا جائے کہ پچھلے ستؔر سال میں مسلم طبقہ صرف اپنے ماضی پر ناز کرکے حال کو بے حال کرتا رہا ہے کوئی ایسا قابل ذکر کارنامہ مجموعی طور پر انجام نہیں دیا گیا جو مسلمانوں کے وقار و تشخص کے استحکام اور شناخت کی بحالی کے لئے ضروری ہے۔ حال ہی میں لکھنئو کی انٹیگرل یونیورسٹی میں تشریف لائے مرکزی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اپنی تقریر میں جو مثالیں پیش کی تھیں ان میں سے بیشتر کا محور و مرکز ہندوستان کے مسلمانوں کے ماضی و حال اور مستقبل کے اشاروں پر مشتمل تھا۔

    71ہزار نوجوانوں کو آج ملا روزگار، وزیر اعظم بولے: روزگار میلا ہماری اچھی حکمرانی کی پہچان

    بجٹ2023: سرکاری ملازمین کیلئے ہو سکتے ہیں دو بڑے فیصلے! گھر بنانے کو ملیں گے اور زیادہ پیسہ


    انہوں نے یونیورسٹی کے بانی و چانسلر کے تعلیمی اقدامات کی تعریف و توصیف میں بھی بہترین کلمات ادا کیے تھے کہنے

    کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس ایک وزن ہے نظریہ ہے ،مشن ہے اور کچھ کر گزرنے کے جذبے ہیں تو محدود وسائل اور مخالف حالات میں بھی غیر معمولی خدمات انجام دی جاسکتی ہیں۔ پروفیسر وسیم اختر کہتے ہیں کہ بادِ مخالف تیز ہی چراغ سہمے ہوئے ہیں اور اقلیت بے فانوس بے یار و مددگار ہے، ایسے میں کوئی معجزہ ہی اس ملت کے شیرازے کو منتشر ہونے سے بچا سکتا ہے، نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤ گے سن لو اے مسلمانو۔تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں یہ بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ جتنی تیزی سے ہندوستان میں اقلیت زوال پذیر ہوئی ہے اس کی توقع نہیں تھی ستم تو یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ سلسلہ مزید و شدید ہوتا جا رہا ہے لیکن اس صورت حال پر ماتم کرتے رہنا بھی کوئی عقل مندی نہیں تاریخ شاہد ہے کہ جب جب قوموں نے حوصلہ مند قدم اٹھائے ہیں۔ حالات نے کروٹیں بدلی ہیں، تخریب حسیں کردیتی ہے تعمیر کے نقشِ ناقص کو  بت خانے کی قسمت کیا کہیے اجڑے تو حرم ہوجاتا ہے۔ اگر اب بھی شعور و تدبر کے ساتھ منظم کوششیں کی جائیں تو حالات بہتری کے لئے تبدیل کئے جاسکتے ہیں ۔
    Published by:Sana Naeem
    First published: