چانسلر پردیپ کھوسلا: یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کا سان ڈیاگو کیمپس تعلیمی اور تحقیقی مرکز کے طور پر ابھرا

(تصویر بشکریہ ایرک جیپسین، یوسی سان ڈیاگو / spanmag.com)

(تصویر بشکریہ ایرک جیپسین، یوسی سان ڈیاگو / spanmag.com)

چانسلر پردیپ کھوسلا کی قیادت میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کا سان ڈیاگو کیمپس( یو سی سان ڈیاگو )ایک تعلیمی اور تحقیقی مرکز کے طور پر ابھرا ہے اور اس نے یونیورسٹی اور معاشرے کی شراکت داری کو مضبوطی فراہم کی ہے۔

  • Share this:
    اسٹیو فاکس

    جب پردیپ کھوسلا نے اگست 2012 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا  کے سان ڈیاگو کیمپس(یو سی سان ڈیاگو) کے چانسلرکی ذمہ داری سنبھالی تو انہیں اس بات پر یقین تھا کہ اس یونیورسٹی کا قیام عظمت کے لیے ہوا ہے۔ لہذا ،انہوں نے ایک پرعزم لائحہ عمل پر کام شروع کیا جس نے اسے حقیقت کی شکل بھی دی۔  وہ کہتے ہیں  ’’میں نے ایک سنگ نا تراشیدہ دیکھا۔ ہم طریقہ کار کے ایک مکمل نظام کے مطابق کام کرتے ہیں جس کا بنیادی مقصد اس کیمپس کو وہ حیثیت عطا کرنا ہے جہاں عوامی تعلیم کے اس کے کردار اور اپنے معاشرے میں ایک عوامی ادارے کے طور پر اسے از سر نو متعارف کروایا جا سکے۔‘‘

    منصوبہ بند طور پر کام  کرنے والا شخص

    کھوسلا اور یوسی سان ڈیاگو نے شروع سے ہی ’’تعلیم کے ذریعہ علم پھیلا کر، تخلیقی کاموں اور عوامی خدمت میں مشغول ہو کر کیلیفورنیا اور ایک متنوع عالمی معاشرے کو تبدیل کرنے کے‘‘مشن کو اپناتے ہوئے اپنا مقصد اعلیٰ رکھا ۔

    ان کا یہ مشن کامیاب ہو گیا۔ کھوسلا اب ایک ایسے کیمپس کی قیادت کر رہے ہیں جس میں 43 ہزار سے زیادہ طلبہ (جب وہ یہاں آئے تھے توطلبہ کی تعداد قریب قریب 25 ہزار تھی) ہیں، سات انڈر گریجویٹ کالج اور 12 علمی، گریجویٹ اور پیشہ ورانہ اسکول ہیں۔ یوسی سان ڈیاگو میں معروف اسکریپس انسٹی ٹیوشن آف اوشینوگرافی اور یو سی سان ڈیاگو ہیلتھ کیئر سسٹم بھی موجود ہے جو ایک اعلیٰ درجے کا اسپتال اور تعلیمی ادارہ ہے۔ مالی سال 2022 میں 6 اعشاریہ 9 بلین ڈالر کی سالانہ آمدنی کے ساتھ یونیورسٹی ایک تعلیمی اور تحقیقی مرکز ہے  جس نے مالی سال 2022 میں اسپانسرڈ ریسرچ(مطالبے کی وجہ سے شروع کی گئی تحقیقی جس کے لیے سرمایہ بھی فراہم کیا گیا ہو) میں ایک اعشاریہ 64 بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کو ترغیب دی ۔

    کھوسلا کہتے ہیں ’’ہم نے یو سی سان ڈیاگو کوعمدگی کے بہت سارے انفرادی گودام کی جگہ ایک جامع کیمپس میں تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا تھا۔‘‘وہ مزید کہتے ہیں ’’رقم اکٹھا کرنے، کمیوں کو دور کرنے اورکیمپس کو پورے معاشرے کے لیے ایک عوامی ادارے کے طور پر از سر نو متعارف کرانے میں ہم لوگ کامیاب رہے ہیں۔ اس کیمپس کو تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے علاوہ فنون لطیفہ اور ثقافت کی منزل بننے کی ضرورت ہے۔ اور یہ صرف اپنے معاشرے کے لیے نہیں بلکہ پورے کیلیفورنیا اور پوری دنیا کے لیے ہونا چاہیے۔‘‘

    اب زندگی کی  65 بہاریں دیکھ  چکے کھوسلا شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے بھی ہیں۔ آئی آئی ٹی  کھڑگپور سے بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے کریئر کا بیشتر حصہ ریاست پنسلوانیا کے شہر  پٹسبرگ میں واقع کارنیگی میلن یونیورسٹی میں گزارا جہاں انہوں نے الیکٹریکل انجینئرنگ میں ماسٹر آف سائنس اور الیکٹریکل اور کمپیوٹر انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی  کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے کارنیگی میلن میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اورپھر کالج آف انجینئرنگ کے ڈین اور یونیورسٹی کے پروفیسر بنے۔

    اگرچہ اب وہ روبوٹکس، مصنوعی ذہانت اور سائبر سیکیورٹی میں تحقیقی دلچسپی رکھنے کے علاوہ بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق اور ماہر تعلیم ہیں لیکن کھوسلا کو 1981 میں امریکہ پہنچنے کے بعد امریکی اعلی ٰتعلیمی نظام میں ہم آہنگ ہونا پڑا تھا۔ وہ بتاتے ہیں ’’میں روزانہ کی بنیاد پر پڑھائی کرنے کا عادی نہیں تھا۔ میں بھارت میں ان ’طلبہ‘میں سے ایک تھا جو بس امتحان سے پہلے پڑھائی کرتے تھے۔ جب میں امریکہ آیا تو معلوم ہوا کہ یہاں روزانہ ہوم ورک ملتا ہے اور ہر دو ہفتوں میں ایک ٹیسٹ ہوا کرتا ہے۔ اب میں نے ہر روز مطالعہ کرنا شروع کیا اور پھر مجھے لگا کہ میرے لیے اس کا حتمی نتیجہ مواد کی گہری تفہیم تھی۔‘‘

    ہندوستان سے تعلق

    یو سی سان ڈیاگو کے ہندوستان کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ 2022 کے موسم خزاں تک یونیورسٹی میں بھارت سے تعلق رکھنے والے 1367 طلبہ زیر تعلیم تھے جو ایک سال پہلے کے مقابلے تقریبا 30 فی صد زیادہ ہے ۔ یوسی سان ڈیاگو میں بھارت کے 265 بین الاقوامی اسکالرس بھی پڑھائی کرتے ہیں۔

    یو سی سان ڈیاگونے ، ٹاٹا ٹرسٹز  اور بینگالورو میں واقع انسٹی ٹیوٹ فار اسٹیم سیل بایولوجی اینڈ ریجنریٹو میڈیسن کے مابین تعاون یعنی ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ فار جینیٹکس اینڈ سوسائٹی سمیت پورے بھارت میں مختلف شراکت داروں کے ساتھ باہمی طور پر مفید تحقیقی تعاون کیےہیں۔  یونیورسٹی نے حال ہی میں ٹوینٹی فرسٹ سینچری انڈیا سینٹر کا آغاز کیا ہے جو بھارت میں پائیدار ترقی سے متعلق تحقیق، تعلیم اور عوامی شمولیت اور امریکہ ۔ بھارت تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے  عالمی معیار کے مرکز کے طور پر کام کرے گا۔

    یہ بھی پڑھئے: ترانوں کی بدولت اتحاد: سالانہ ون بیٹ ایکسچینج پروگرام دنیابھر سے موسیقاروں کو کرتا ہے یکجا


    یہ بھی پڑھئے: بین الاقوامی طلبہ کیلئے امریکی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اختیاری عملی تربیت ایک منفرد موقع


    پرجوش مہمات کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کھوسلا سرمایہ یکجاکرنے میں بے حد کامیاب رہے ہیں۔  اپنی مدت کار میں انہوں نے ۳ بلین ڈالرسے زیادہ رقم اکٹھا کرنے اور عطیہ دہندگان کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنے میں بے حد کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’سرمایہ یکجا کرنا ایک ایسا معاملہ ہے جس میں طول و عرض میں کئی بار کئی افراد سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ جہاں تک اس کا معاملہ ہے، لوگ  صرف دوباتوں پر توجہ دیتے ہیں۔ ایک عظیم خیالات اوردوسرے وہ جن پر انہیں اعتماد ہے۔  میرے خیال میں یہ واقعی اہم ہے اور ایک رہنما کی حیثیت سے مجھے ایک فرد کے ساتھ اعتماد پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کی محنت کی کمائی ضائع نہیں ہونے والی ہے بلکہ اسے نتیجہ خیز اور مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے گا۔‘‘

    اگرکھوسلا کو یہ سب کرنے کا موقع  دوبارہ ملتا ہے تو وہ اعلیٰ تعلیم کے لیےپھر امریکہ جانا چاہیں گے۔ ان کا کہنا ہے ’’ گذشتہ چند برسوں کے تمام نشیب و فراز کے باوجود امریکہ اب بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے پسندیدہ مقام ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں’’امریکہ جیسا کوئی دوسرا ملک نہیں ہے۔  اعلیٰ تعلیم میں امریکہ کی سرمایہ کاری کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔ امریکہ جانتا ہے کہ دولت کیسے پیدا کی جاتی ہے  اوراپنے شہریوں اور تارکین وطن کے لیے یکساں مواقع کیسے پیدا کیے جاتے ہیں۔‘‘

    کھوسلا امریکہ اور بھارت کے درمیان قریبی تعلقات کے انتھک اور پرجوش حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں  ’’میرے خیال میں ہم بھارتی صنعت اور تعلیمی اداروں اور امریکی صنعت اور امریکی تعلیمی اداروں کے درمیان تعلقات کو جتنا مضبوط بنا سکیں، اسی قدر یہ دونوں ممالک اور دنیا کے لیے بہتر ہوگا۔‘‘وہ مزید کہتے ہیں ’’میں دونوں ممالک کو قریب لانے، ثقافتی خلا اور تکنیکی خلا کو پر کرنے کے لیے یہاں ہوں۔ میں اسے کئی برسوں سے انجام دے رہا ہوں اور ایسا کرتا رہوں گا اور میں اپنے تمام بھارتی دوستوں سے، جن کی تعداد بہت زیادہ ہے، کہتا ہوں کہ کھلے دل کے ساتھ آئیں،  میں آپ کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں۔آپ جو بھی ہیں، میں اس کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔‘‘

    بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
    Published by:Imtiyaz Saqibe
    First published: