اسرائیلی حملوں سے کس طرح فلسطینی بچوں کو نفسیاتی نقصان (psychologically damage) پہنچ رہاہے؟

غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں ہلاکتوں کی تعداد 212 ہوگئی ہے جس میں 58 بچے اور 34 خواتین اور بزرگ شہری شامل ہیں۔

غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں ہلاکتوں کی تعداد 212 ہوگئی ہے جس میں 58 بچے اور 34 خواتین اور بزرگ شہری شامل ہیں۔

ٹی آرٹی ورلڈ کی رپورٹ کے مطابق 54.7فیصد سے زیادہ فلسطینی بچوں نے اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ تکلیف دہ واقعہ کا تجربہ کیا ہے اور اسرائیل کے مسلسل حملوں سے ان کے درمیان نفسیاتی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

  • Share this:
    اسرائیل نے فلسطین پر اپنے بھیانک اور تباہ کن فضائی حملوں میں گذشتہ کئی روز سے اضافہ کردیا ہے۔ یہاں تک کہ ان حملوں کے دوارن خواتین ، بچوں اور میڈیا تنظیموں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔اسرائیل نے فلسطین پر گذشتہ آٹھ روز کی جنگ مسلط کی ہے جس سے نہ صرف بڑوں بلکہ بچوں پر بھی شدید نفسیاتی دباؤ پڑ رہا ہے۔ترکی کی ممتاز ماہر نفسیات ایسرا اورس (Esra Oras) نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ اسرائیل کی جارحانہ کارروئیاں جو بڑی حد تک اس کے فوج کے ذریعہ چل رہی ہیں، وہ منظم طریقے سے فلسطینیوں کو دائمی صدمے سے دوچار کررہی ہیں اور ظلم کے شیطانی چکر نے انھیں بے حد تکلیف پہنچائی ہے۔

    • ذہنی نشوونما متاثر:


    استنبول میں مقیم نفسیاتی مشاورت (A'N Psychological Counseling) کے بانی اورس (Oras) کہتے ہیں کہ ان حملوں سے نہ صرف بچوں کو بلکہ پوری عوام کو صدمے کے ایک مستقل دور کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ یہ بچوں کی ذہنی نشوونما کو متاثر کرتا ہے اور اپنے آس پاس موجود والدین کو نفسیاتی طور پر بھی کمزور کرتا ہے‘‘۔

    اسرائیلی فوج نے گذشتہ دو دہائیوں میں کم از کم 3000 فلسطینی بچوں کو ہلاک کیا ہے۔ چونکہ بچے بزرگوں کی طرح اسرائیلی جنگی مشین کا شکار ہیں۔ اسی لیے یہ صورتحال فلسطینی معاشرے میں بڑے پیمانے پر صدمے کا سبب بنی ہے۔

    اسرائیلی فوج نے گذشتہ دو دہائیوں میں کم از کم 3000 فلسطینی بچوں کو ہلاک کیا ہے
    اسرائیلی فوج نے گذشتہ دو دہائیوں میں کم از کم 3000 فلسطینی بچوں کو ہلاک کیا ہے


    • ہمدرد اعصابی نظام کیا ہے؟


    اورس نے وضاحت کی کہ صدمے کا خطرہ سب سے پہلے خطرہ ’’ہمدرد اعصابی نظام‘‘ (sympathetic nervous system) پر ہوتا ہے۔ یہ نظام انسانی جسم میں خوشی اور غم اور اچھے اور برے کیفیات (Feelings) کا اظہار کرتا ہے۔ جس سے انسان کے دماغ اور پورے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے۔ اسی لیے یہ نظام انسان کے موڈ کو بھی تبدیل کردیتا ہے۔

    ’’ہمدرد اعصابی نظام‘‘ (sympathetic nervous system) پر مسلسل بم دھماکوں، اپنوں کی جدائیگی، پڑوسیوں کی ہلاکت اور گھر بار کی تباہی وبربادی کی وجہ سے نہایت سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے معصوم بچے ان حالات کی تاک نہ لا کر نفںسیاتی امراض میں مبتلا ہوتے جارہا ہیں۔ جس سے ان کی ذہنی صحت (Mental health) متاثر ہورہی ہے۔

    • ’’لڑو یا مرو‘‘


    ’’یہ نظام خطرناک حالات یا تناؤ والے حالات میں جسم کے اچانک اور غیرمعمولی ردعمل کے لیے ہدایت دیتا ہے۔ جب نظام کسی شخص کو الرٹ کرتا ہے تو یہ ایک ایڈرینالائن رش کو متحرک کرتا ہے، جو جسم کو یہ بتاتا ہے کہ لڑنا ہے یا دوڑنا ہے (fight or run)‘‘۔

    انھوں نے آخر میں کہا کہ ایسے لمحات آتے ہیں جب "فائٹ یا رن" آپشن دستیاب نہیں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کے گھر میں اچانک میزائل سے حملہ ہوتا ہے تو لڑنے یا منتشر ہونے کی ایک نئی صورتحال واقع ہوتی ہے۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر

     اسرائیلی حملوں سے فلسطینی بچوں کو سخت نفسیاتی نقصان (psychologically damage) پہنچ رہا ہے۔
    اسرائیلی حملوں سے فلسطینی بچوں کو سخت نفسیاتی نقصان (psychologically damage) پہنچ رہا ہے۔


    واضح رہے کہ غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں ہلاکتوں کی تعداد 212 ہوگئی ہے جس میں 58 بچے اور 34 خواتین اور بزرگ شہری شامل ہیں۔اسرائیل کی تازہ جارحیت کو 2014 کے بعد سے سب سے زیادہ تباہ کن سمجھا جاتا ہے۔ اس جنگ میں کم از کم 2100 فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں 1462 عام شہری بھی شامل ہیں۔
    Published by:Mohammad Rahman Pasha
    First published: