Explained: کیا ہے بلیو اکنامی ، جس کو لے کر دنیا بھر کے ملکوں میں ہوڑ مچی ہے ؟
سال 2010 میں آئے لفظ بلیو اکنامی نے چین کو بوکھلا کر ردکھ دیا ہے ۔ وہ سمندری راستوں پر قبضہ کرکے دنیا کا لیڈر بننے کی کوشش میں ہے ۔ ہندوستان میں بھی اس معیشت پر زور دیا جارہا ہے ۔
- News18 Urdu
- Last Updated: Mar 30, 2021 01:19 PM IST

Explained: کیا ہے بلیو اکنامی ، جس کو لے کر دنیا بھر کے ملکوں میں ہوڑ مچی ہے ؟ (pixnio)
وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کی بات کررہے ہیں ۔ اسی سلسلہ میں انہوں نے ملک کو بلیو اکنامی میں آگے بڑھانے کی سوچ پیش کی ہے ۔ وزیر اعظم مودی کا ماننا ہے کہ وہی ملک ورلڈ لیڈر بنے گا ، جس کی بلیو اکنامی مضبوط ہوگی ۔ تو کیا ہے یہ بلیو اکنامی ؟ یہ اصل میں سمندر کے ذریعہ کاروبار ہے ۔ آنے والے وقت میں وہی ملک راج کرے گا ، جو اس معاملہ میں سب سے آگے ہوگا ۔
بلیو اکنامی لفظ زیادہ پرانا نہیں ہے ، بلکہ آج سے دہائی بھر پہلے ہی یہ لفاظ وجود میں آیا ۔ بیلجیئم کاروباری اوررائٹر گنٹیر پالی نے اس لفظ کی تلاش کی تھی ۔ بعد میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں استعمال کیا جانے لگا اور اس کے بعد سے یہ مسلسل استعمال ہورہا ہے ۔ حالانکہ یہ لفظ نیا ہے ، لیکن اس لفظ کا جو مطلب ہے وہ سینکڑوں سالوں سے چلا آرہا ہے ۔
صدیوں سے کاروباری ایک دوسرے ملک جاکر سمندر کے ذریعہ کاروبار کرتے رہے ہیں ۔ تب ہوائی جہاز نہیں تھے اور نہ ہی سڑک راستے سے دنیا مربوط تھی ۔ ایسے میں کاروبار کا ایک واحد اور سب سے مضبوط ذریعہ سمندر ہی تھا ۔

بلیو اکنامی کو مزید تقویت بخشنے کی بات ہورہی ہے ۔ (pixabay)
اب اسی بلیو اکنامی کو مزید تقویت بخشنے کی بات ہورہی ہے ۔ مودی حکومت کی وزیر خزانہ نرملا سیتامن نے بھی عام بجٹ میں بلیو اکنامی کو مضبوط کرنے کی بات کی تھی ۔ اس کے تحت معیشت سمندری شعبہ پر مبنی ہوتی ہے ، جس میں ماحولیات کے تحفظ کو دھیان میں رکھتے ہوئے بزنس ماڈل تیار کئے جاتے ہیں ۔ یہ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ آبی راستوں سے زیادہ کاروبار ہوسکے ۔ اس کیلئے سمندر میں چھوٹے راستے بنائے جاتے ہیں تاکہ وقت اور پیسہ کی بچت ہوسکے ۔
بلیو اکنامی میں صرف سمندری راستے سے کاروبار کرنا ہی شامل نہیں ہے ، بلکہ اس کے تحت سمندری اشیا کا کاروبار بھی ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر سمندر کی تہہ میں بہت سی قیمتی معدنیات موجود ہیں ۔ ان کی کان کنی اور فروخت ملک کو بہت آگے لے جاسکتی ہے ۔ سمندری مصنوعات میں مچھلی اور دیگر سمندری مخلوقات شامل ہیں ، جن کا کاروبار کیا جاتا ہے۔ ان کی پرورش اور افزائش پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔

سمندر کے راستے جہازوں کی آمد و رفت سے آلودگی ہوتی ہے اور ایندھن کے پانی میں ملنے سے پانی آلودہ ہوجاتا ہے ۔(pixabay)
سمندر کے راستے جہازوں کی آمد و رفت سے آلودگی ہوتی ہے اور ایندھن کے پانی میں ملنے سے پانی آلودہ ہوجاتا ہے ۔ ماضی میں ایسے کئی واقعات پیش آئے جب سمندر میں تیل مل جانے کی وجہ سے سینکروں میل دور تک کا پانی آلودہ ہوگیا اور آبی مخلوقات مرنے لگیں ۔ یعنی بلیو اکنامی سے کہیں نہ کہیں سمندری مخلوقات اور ماحولیات کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہے ۔ اب آلودگی پر قابو پانے پر بھی کام کیا جارہا ہے ، جس کو بلیو گروتھ کہا جارہا ہے ۔ اس کے ذریعہ وسائل کی کمی اور فضلہ کو ضائع کرنے کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
سمندر میں بڑے مال بردار جہازوں کے ذریعہ بڑی مقدار میں سامان ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچائے جاسکتے ہیں ، لیکن اس کے لئے سمندر میں اس طرح کا انفراسٹرکچر تیار کرنا ہوگا ، جو ماحولیات کو کم سے کم نقصان پہنچائے ۔ فی الحال ملک میں اس پر کافی کام ہو رہے ہیں ۔ بتادیں کہ ملک کی کل تجارت کا 90 فیصد حصہ سمندری راستے سے ہی ہو رہا ہے ۔ ایسی صورتحال میں بلیو گروتھ کے تحت ماحولیات پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔

ملک کی کل تجارت کا 90 فیصد حصہ سمندری راستے سے ہی ہو رہا ہے ۔(pixabay)
ادھر بلیو اکنامی کے فائدوں سے چین بھی لاعلم نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل ساوتھ چائنا سی پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہے ۔ ساوتھ چائنا سی کئی ممالک سے مربوط ہونے کی وجہ سے کافی اہم ہے ۔ اس کو دنیا کے کچھ سب سے زیادہ مصروف آبی گزرگاہوں میں سے ایک مانا جاتا ہے ۔ اسی راستہ سے ہر سال پانچ ٹریلین ڈالر قیمت کا انٹرنیشنل کاروبار ہوتا ہے ۔ یہ دنیا کے کل سمندری کاروبار کا 20 فیصد ہے ۔ اس کے ذریعہ چین الگ الگ ممالک تک کاروبار میں سب سے آگے جانا چاہتا ہے ۔
سب سے زیادہ تنازع پارسل آئس لینڈ کو لے کر ہے ۔ یہ حصہ خام تیل اور قدرتی گیس کا ذخیرہ ہے ۔ ساتھ ہی تقریبا 35 لاکھ مربع کلو میٹر پر محیط اس سمندر میں مونگے اور سمندری مخلوقات کی بھرمار ہے ۔ یہاں اتنی قسم کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں کہ دنیا بھر میں مچھلی کاروبار کی تقریبا آدھی سپلائی یہیں سے ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چین اس کو بھی ہڑپنا چاہتا ہے ۔