اپنا ضلع منتخب کریں۔

    اترپردیش : عدم سیاسی شعور اور اقلیت کے نقصانات

    فرقہ پرست طاقتیں دو محاذوں پر خاص طور سے کام کر رہی ہیں ایک تو یہ کہ انہوں نے لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر  تقسیم کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کی پرورش کرکے ووٹوں کی تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔

    فرقہ پرست طاقتیں دو محاذوں پر خاص طور سے کام کر رہی ہیں ایک تو یہ کہ انہوں نے لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کی پرورش کرکے ووٹوں کی تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔

    فرقہ پرست طاقتیں دو محاذوں پر خاص طور سے کام کر رہی ہیں ایک تو یہ کہ انہوں نے لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کی پرورش کرکے ووٹوں کی تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔

    • Share this:
    لکھنئو: کہا جاتا ہے کہ موجودہ عہد میں زندگی کے کسی بھی محاذ پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے ، یہ بات شاید اس لیے صحیح معلوم ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو آبادی کے تناسب میں مسلمانوں سے خاصے کم ہیں وہ  زندگی کے ہر میدان اور ہر محاذ پر ان سے بہت آگے ہیں ۔ اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں ، لیکن بنیادی سبب یہی ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے وہ سماجی ، تعلیمی، اقتصادی اور معاشی نیز ہر میدان میں اور ہر سطح پر کمزور ہوگئے ہیں، نہ سرکاری نوکریوں میں باقی رہے اور نہ سیاسی ایوانوں اور دیگر اہم منصب و مقامات پر۔ معروف دانشور اور ہائی کورٹ کے سابق جج بدرالدجیٰ نقوی کہتے ہیں کہ کہ ملک کے موجودہ نظام میں بغیر سیاسی اور تعلیمی استحکام حاصل کئے ترقی کے خواب دیکھنا بے مقصد و بے معنی ہے ۔ ایک کم پڑھے لکھے وزیر کے سامنے سر اور نگاہیں جھکا کر کھڑے رہنے اور وزراء کے اشاروں پر قلم کو جنبش دینے والے اعلیٰ افسران کی حالت اور طرز عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ عہد میں سیاسی منصب اور اقتدار کا حصول بظاہر تعلیم  کے حصول سے زیادہ اہم ہے ، تعلیمی اور سیاسی استحکام لازمی ہے ۔

    معروف سیاسی و سماجی کارکن اور دانشور سید بلال نورانی کہتے ہیں کہ اب کسی بھی ایک محاذ پر کامیابی حاصل کرنے سے زندگی کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور اگر بات ہندوستان کی سب سے زیادہ پسماندہ اقلیت بالخصوص مسلمانوں کے تعلق سے کی جائے تو تعلیم اور سیاست دونوں میدانوں میں انقلابی سطح ہر کوششیں کرنی ہوں گی لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ووٹ بینک کی طرح استعمال ہونے والی اس ملت کے پاس نہ شعور ہے نہ پیسہ اور نہ وہ وسائل جو اس باب میں کارگر  ابر ہوسکتے ہیں۔

    اعظم خاں کی رہائی کے لئے مسلسل آوازیں اٹھانے والے بلال نورانی یہ بھی کہتے ہیں کہ جو سیاسی جماعت اپنے اہم لیڈر پر ہورہے ظلم کے خلاف آواز تک نہیں اٹھارہی ہے اس سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے بات یہاں صرف سیاسی جماعت کی ہی نہیں بلکہ  سماج کے ان ہزاروں لاکھوں لوگوں کی بھی ہے جو خود کو غیرت مند کہتے ہیں لیکن مکمل طور پر بے غیرت و بے حس ہو چکے ہیں۔

    اتر پردیش میں سیاسی گہما گہمی بڑھنے کے بعد چھوٹی بڑی سبھی سیاسی جماعتوں نے ایک بار پھر اس کمزور طبقے کے ووٹ کی طاقت کو حاصل کرنے کے لئے کوششیں تیز کردی ہیں۔  بات خواہ سماج وادی پارٹی کی ہو ، بی ایس پی اور کانگریس کی یا پھر بر سر اقتدار بی جے پی کی ، اس اقلیتی ووٹ بنک کے دعویدار سب ہیں ، مگر پرسانِ حال کوئی نہیں اور اب بڑے دعویداروں میں  اسد الدین اویسی کا نام بھی شامل ہوچکا ہے اور خاص طور پر اتر پردیش میں وہ خود کو مسلمانوں کے ووٹ کا بڑا حقدار تصور کررہے ہیں اور دعویداری کے جواز میں ان کے پاس  فرقہ پرست طاقتوں کے دیے ہوئے مسلمانوں کے وہ زخم بھی موجود ہیں ، جن پر تمام سیاسی جماعتوں نے  صرف جھوٹے دلاسوں کے پھاہے رکھے ہیں اور ان کا علاج نہیں کیا ہے ۔ ایسی صورت حال میں اگر سماج وادی پارٹی اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے مابین کوئی سیاسی مفاہمت نہیں ہوسکی ، تو ایک بار پھر بڑی شکست اور اقلیت ایک دوسرے کے دامن سی لگے رہیں گے ۔

    جمعیۃ العلماء لکھنئو کے شہر صدر سید وزین احمد کے مطابق فی الوقت  سیاسی منظر نامہ مایوس کن ہے ۔ اقلیتی ووٹ بینک کی تقسیم کی راہیں بر سر اقتدار جماعت کی جانب سے ہموار کی جارہی ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ موجودہ عہد کے اہم ارباب اقتدار کی جانب سے ایک طرف تو مذہبی بنیادوں پر لوگوں کو تقسیم کیا جارہاہے اور دوسری جانب اقلیتی ووٹ بینک کی تقسیم کو یقینی بنانے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں ۔ اگر حزب اختلاف نے ان پہلووں  اور اقدامات پر سنجیدہ غور و خوص کرتے ہوئے اس کے تدارک کے لیے پیش رفت نہ کی تو ایک بڑا  طبقہ اس احساسِ ناکامی کے باہر  نہ آسکے گا اور اس کا اسی طرح سیاسی استحصال ہوتا رہے گا جیسا ماضی میں ہوتا رہاہے ۔
    Published by:Imtiyaz Saqibe
    First published: