چلی کے دارالحکومت سینٹیاگو میں 6.2 شدت کے زلزلے کے تیز جھٹکے

  چلی کے دارالحکومت سینٹیاگو میں 6.2 شدت کے زلزلے کے تیز جھٹکے

چلی کے دارالحکومت سینٹیاگو میں 6.2 شدت کے زلزلے کے تیز جھٹکے

نیشنل سینٹر فار سسمالوجی نے زلزلے کی تصدیق کی ہے۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Chile
  • Share this:
    چلی کے دارالحکومت سینٹیاگو میں جمعرات کی رات دیر گئے زلزلے کے تیز جھٹکے محسوس کیے گئے۔ ری ایکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 6.2 درج کی گئی۔ نیشنل سینٹر فار سسمالوجی نے زلزلے کی تصدیق کی ہے۔ نیشنل سینٹر فار سسمالوجی نے بتایا کہ زلزلے کا مرکز سینٹیاگو کے 328 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع تھا۔ زلزلے سے ابھی تک کسی طرح کے نقصان کی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔


    کیسے آتا ہے زلزلہ؟

    زلزلے کے آنے کی اہم وجہ زمین کے اندر پلیٹوں کا ٹکرانا ہے۔ زمین کے اندر سات پلیٹیں ہوتی ہیں جو لگاتار گھومتی رہتی ہیںَ جب یہ پلیٹیں کسی جگہ پر آپس میں ٹکراتی ہیں تو وہاں فالٹ لائن زون بن جاتا ہے اور سطح کے کونے مڑ جاتے ہیں۔ سطح کے کونتے مڑنے کی وجہ سے وہاں دباو بنتا ہے اور پلیٹس ٹوٹنے لگتی ہیں۔ ان پلیٹس کے ٹوٹنے سے اندر کی انرجی باہر آنے کا راستہ ڈھونڈتی ہے، جس کی وجہ سے زمین ہلتی ہے اور ہم اسے زلزلہ مانتے ہیں۔

    زلزلے کی شدت

    ری ایکٹر اسکیل پر 2.0 سے کم شدت والے زلزلے کو مائیکرو زمرے میں رکھا جاتا ہے اور یہ زلزلہ محسوس نہیں کیے جاتے۔ ری ایکٹر اسکیل پر مائیکرو کیٹگری کے 8000 زلزلے دنیا بھر میں روزانہ درج کیےی جاتے ہیں۔ اسی طرح 2.0 سے 2.9 شدت والے زلزلے کو کمتر زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ ایسے 1000 زلزلے ہر روز آتے ہیں اسے بھی عام طور پر ہم محسوس نیہں کرپاتے ہیں۔ ویری لائٹ کیٹگری کے زلزلے 3.0 سے 3.9 شدت والے ہوتے ہیں، جو ایک سال میں 49000 مرتبہ درج کیے جاتے ہیں۔ انہیں محسوس تو کیا جاتا ہے لیکن شائد ہی ان سے کوئی نقصان پہنچتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:

    مفت آٹے نے لی 11 لوگوں کی جان، عمران خان نے کہا-چوروں کی حکومت نے زندگی کو بنایا قابل رحم

    یہ بھی پڑھیں:

    لائٹ کیٹگری کے زلزلے 4.0 سے 4.9 شدت والے ہوتے ہیں جو پوری دنیا میں ایک سال میں تقریباً 6200 مرتبہ ری ایکٹر اسکیل پر درج کیے جاتے ہیں۔ ان جھٹکوں کو محسوس کیا جاتا ہے اور ان سے گھر کے سامان ہلتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ان سے نہ کے برابر ہی نقصان ہوتا ہے۔
    Published by:Shaik Khaleel Farhaad
    First published: