افغانستان کے بغلان صوبے کے کوئلہ کانوں میں دھماکہ، دم گھٹنے سے چار مزدوروں کی موت

افغانستان کے بغلان صوبے کے کوئلہ کانوں میں دھماکہ، دم گھٹنے سے چار مزدوروں کی موت(علامتی تصویر)

افغانستان کے بغلان صوبے کے کوئلہ کانوں میں دھماکہ، دم گھٹنے سے چار مزدوروں کی موت(علامتی تصویر)

اس سے قبل 17 مئی کو صوبہ بغلان کے تلے برفک ضلع میں کوئلے کی کان میں دم گھٹنے سے ایک کان کن کی موت ہو گئی تھی، جب کہ چھ دیگر کو زہر دیا گیا تھا۔

  • Share this:
    افغانستان کے صوبے بغلان کی کوئلہ کانوں میں دھماکہ کے بعد دم گھٹنے سے چار کانکنوں کی موت ہوگئی ہے۔ مقامی میڈیا نے جمعرات کو عہدیداروں کے حوالے سے یہ معلومات دی ہے۔

    میڈا کے مطابق، بغلان میں طالبان کانوں کے سربراہ عبداللہ حامد نے دو واقعات کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ 23  مئی کو افغانستان کے بغلان صوبے کے طال برفک اور جلگاہ اضلاع میں دو الگ الگ گیس دھماکوں میں چار کوئلہ کانکنوں کی موت ہوگئی۔

    انہوں نے بتایا کہ پہلے واقعے میں، دو بھائی، ناظر اور عبدالصیر، تلے برفک ضلع کے پشتے مارک گاؤں میں کوئلے کی کان میں کام کے دوران گیس کی چپیٹ میں آنے سے ہلاک ہو گئے۔ دوسرے واقعے میں ضلع جلگاہ کے علاقے شاہ کل چنارک میں کام کے دوران شیر اور دوست محمد نامی باپ بیٹا کی موت ہوگئی۔

    اس سے قبل 17 مئی کو صوبہ بغلان کے تلے برفک ضلع میں کوئلے کی کان میں دم گھٹنے سے ایک کان کن کی موت ہو گئی تھی، جب کہ چھ دیگر کو زہر دیا گیا تھا۔ یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد ملک کے کانوں کے تحفظ کے قوانین پر سوالات اٹھنے لگے۔

    یہ بھی پڑھیں:

    پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ! عمران اور بشریٰ بی بی سمیت PTI کے کئی رہنماؤں کے ملک چھوڑکر جانے پر پابندی عائد

    میڈیا رپورٹ کے مطابق، کانکنوں کی زندگی کی قیمت کو لے کر اکثر سیکورٹی احتیاطی تدابیر کی امید کی جاتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں کانکنوں کی فلاح  کی فوری ضرورت ہے تا کہ ان کی حفاظت اور سلامتی پہلے سے زیادہ یقینی بنائی جاسکے۔

    یہ بھی پڑھیں:

    عمران کے قریبی اسد عمر نے چھوڑ دیا پی ٹی آئی جنرل سکریٹری کا عہدہ، رہائی کے بعد لیا فیصلہ

    افغانستان میں اس سال پولیو کا تیسرا معاملہ آیا سامنے

    افغانستان میں اس سال (2023 میں) پولیو وائرس کا تیسرا معاملہ سامنے آیا ہے۔ صحت کے عہدیداروں نے ننگرہار صوبے میں اس کا پتہ لگایا ہے۔ مقامی میڈیا نے یہ معلومات دی ہے۔
    Published by:Shaik Khaleel Farhaad
    First published: