اپنا ضلع منتخب کریں۔

    طوفان فریڈی کا قہر، جنوب مشرقی افریقہ میں 300 سے زیادہ لوگوں کی لی جان

    طوفان فریڈی کا قہر، جنوب مشرقی افریقہ میں 300 سے زیادہ لوگوں کی لی جان(علامتی تصویر)

    طوفان فریڈی کا قہر، جنوب مشرقی افریقہ میں 300 سے زیادہ لوگوں کی لی جان(علامتی تصویر)

    لاپتہ لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے ملبے میں لوگوں کو پھاوڑا چلاتے دیکھا گیا، یہاں تک کہ لوگ ننگے ہاتھوں سے بھی ملبے کو ہٹارہے تھے۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Malawi
    • Share this:
      طوفان فریڈی نے جنوب مشرقی افریقہ کے ملاوی میں تباہی مچا دی ہے۔ اس طوفان سے ملاوی میں 300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سی این این نے یہ معلومات خشکی میں گھرے ملک کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ امور کے محکمے کے حوالے سے دی ہے۔

      ملاوی کے ڈیزاسسٹر مینجمنٹ معاملات کے محکمے نے کہا کہ سائیکلون نے 326 لوگوں کی جان لے لی ہے۔ اس طوفان کی وجہ سے ہوئی تباہی نے بچے لوگوں کو پھنسا دیا ہے اور وہ اپنے وجود کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ عہدیداروں نے کہا کہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک چیلوبوے میں 30 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں اور درجنوں لاپتہ ہیں۔ تلاشی اور بچاو کی کوششیں جاری ہیں۔ پیر کو لاپتہ لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے ملبے میں لوگوں کو پھاوڑا چلاتے دیکھا گیا، یہاں تک کہ لوگ ننگے ہاتھوں سے بھی ملبے کو ہٹارہے تھے۔

      چار بچوں کی ماں، ڈوروتھی واچیپا نے سی این این سے بات کرتے ہوئے، کہا کہ وہ ہوائی جہاز کے چیخنے جیسی آواز سے بیدار ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تقریباً 12 بج رہے تھے اور میں نے اوپر سے لوگوں کی چیخ و پکار سنی۔ اس کے بعد پتھروں اور درختوں کے ساتھ گدلے پانی کی ندی پہاڑ سے نیچے کی طرف بڑھنے لگی۔ جس میں اس کی تمام جائیداد بہہ گئی۔

      یہ بھی پڑھیں:

      ’سعودی عرب کسی ایسے ملک کو تیل فروخت نہیں کرے گا جو قیمتوں کی حد میں اضافہ کرے‘

      یہ بھی پڑھیں:

      دہشت گردی کی آگ میں خود جھلس گیا پاکستان، مرنے والوں کی تعداد میں لگاتار اضافہ

      سی این این کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ میں سبزی بیچنے کا چھوٹے پیمانے پر کاروبار کر رہی تھی کیونکہ میرے شوہر کا 2014 میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ جو کچھ بھی میرے پاس بچا ہے اس سے میں بچوں کی پرورش کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
      Published by:Shaik Khaleel Farhaad
      First published: