کیا پاکستان کے اسپتالوں میں 400 لاوارث لاشیں بلوچوں اور پشتونوں کی ہیں؟ آخر کیسے ہوگی ساخت؟

انہوں نے مزید کہا کہ اسپتال انتظامیہ ان کا ڈی این اے ٹیسٹ نہیں کروا رہی ہے اور اس معاملے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسپتال انتظامیہ ان کا ڈی این اے ٹیسٹ نہیں کروا رہی ہے اور اس معاملے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لاشوں پر بڑی بڑی ’سلواریں‘ ظاہر کرتی ہیں کہ ہلاک ہونے والے یا تو بلوچ ہیں یا پشتون۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ان کا مضبوط جسمانی ڈھانچہ، پہاڑوں اور سخت خطوں سے ملتا جلتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسپتال انتظامیہ ان کا ڈی این اے ٹیسٹ نہیں کروا رہی ہے-

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • inter, IndiaPakistanPakistanPakistan
  • Share this:
    پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ایک اسپتال کی چھت سے 400 سے زائد لاوارث لاشوں کا پتہ چلا ہے۔ شواہد کے مطابق یہ لاشیں بلوچوں اور پشتونوں کی ہو سکتی ہیں جنہیں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایک ذریعے نے سی این این نیوز 18 کو بتایا کہ ملتان کے پنجاب نشتر اسپتال سے لاوارث لاشیں برآمد ہوئی ہیں اور کئی لاشوں کے سینے پھٹے ہوئے تھے اور اعضاء نکالے گئے تھے۔

    ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لاشوں پر بڑی بڑی ’سلواریں‘ ظاہر کرتی ہیں کہ ہلاک ہونے والے یا تو بلوچ ہیں یا پشتون۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ان کا مضبوط جسمانی ڈھانچہ، پہاڑوں اور سخت خطوں سے ملتا جلتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسپتال انتظامیہ ان کا ڈی این اے ٹیسٹ نہیں کروا رہی ہے اور اس معاملے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔

    خیال کیا جاتا ہے کہ نامعلوم لاشیں جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کی ہیں جنہیں پاکستانی فورسز نے پاکستان کے بلوچستان اور خیبر پختونخوا (کے پی) صوبوں سے اغوا کیا تھا۔

    ذرائع نے بتایا کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لاشیں لاپتہ افراد کی ہیں کیونکہ کسی پنجابی، سرائیکی یا مقامی نے اسپتال انتظامیہ سے ان کا دعویٰ نہیں کیا۔ اے این آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ کے مشیر چوہدری زمان گجر نے بتایا کہ وہ اسپتال کے دورے پر تھے کہ ایک شخص نے ان کے پاس آ کر کہا کہ اگر آپ کوئی اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو مردہ خانے جا کر چیک کر لیں۔ اس نے بتایا کہ جب وہ پہنچے تو عملہ مردہ خانے کے دروازے کھولنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ اسے ابھی نہیں کھولیں گے تو میں آپ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے جا رہا ہوں۔‘‘

    گجر نے بتایا کہ جب انہوں نے ڈاکٹروں سے لاوارث لاشوں کی وضاحت طلب کی تو انہوں نے کہا کہ لاشوں کو میڈیکل کے طلباء تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: 


    بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں نے بین الاقوامی انسانی تنظیموں سے آزادانہ انکوائری اور ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی اپیل کی ہے۔ ہزاروں بلوچ اور پشتونوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ وقتاً فوقتاً یو این ایچ آر سی میں بھی اٹھایا جاتا رہا ہے۔
    Published by:Mohammad Rahman Pasha
    First published: