اپنا ضلع منتخب کریں۔

    سعودی عرب ۔ ایران کے درمیان چین کی ثالثی سے اتحاد: کیا مشرقی وسطی میں آئے گی بڑی تبدیلی؟ ہندوستان کیلئےکیاہےاس کا مطلب؟

    تصویر بشکریہ منی کنٹرول

    تصویر بشکریہ منی کنٹرول

    منی کنٹرول سے بات کرتے ہوئے دہلی پالیسی گروپ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ سنکیت جوشی نے کہا کہ ان دونوں ممالک (سعودی عرب اور ایران) کے درمیان تنازعہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ایک فوری کامیابی کی کہانی ہے، کیونکہ یہ چین کے کانسیپٹ پیپر کے جاری ہونے کے ایک ماہ کے اندر اندر آیا ہے۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Saudi Arabia
    • Share this:
      چین نے اپنی سیاسی طاقت کو سفارتی طاقت میں بدلنا کرنا شروع کر دیا ہے، کیونکہ یہ ملک خلیج فارس کے دو بڑے حریفوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ تہران اور ریاض کے درمیان کئی سال آپسی نااتفاقی رہی ہے۔ جو کہ اسلام کے شیعہ اور سنی مکتبہ فکر کی نمائندگی کرنے والے دو مختلف ممالک ہیں۔ حالیہ برسوں میں پراکسی جنگ، خفیہ بحری حملوں اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے میں دونوں ممالک کے درمیان مزید دوریاں بڑھی ہیں۔

      حالیہ معاہدہ اور مفاہمت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب بیجنگ خطے میں اپنی اقتصادی کوششوں کو بڑھانا چاہتا ہے۔ ایک کامیاب ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے چین خود کو امن کے حامی کے طور پر پیش کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ امریکہ پر روس-یوکرین جنگ کے شعلوں کو بھڑکانے اور ہتھیاروں کی سپلائی سے فائدہ اٹھانے کا الزام بھی لگا رہا ہے۔

      فوری کامیابی یا دور رس نتائج؟

      چینی حکومت نے فروری میں گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو کانسیپٹ پیپر جاری کیا تھا، جس میں کئی ممالک کے درمیان تنازعات کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔

      منی کنٹرول سے بات کرتے ہوئے دہلی پالیسی گروپ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ سنکیت جوشی نے کہا کہ ان دونوں ممالک (سعودی عرب اور ایران) کے درمیان تنازعہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ایک فوری کامیابی کی کہانی ہے، کیونکہ یہ چین کے کانسیپٹ پیپر کے جاری ہونے کے ایک ماہ کے اندر اندر آیا ہے۔

      سہ فریقی معاہدہ: امن یا تجارت؟

      چین کی ثالثی میں ہونے والے امن معاہدے کے 9 مارچ کے اعلان میں سعودی اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی، سفارت خانوں و مشن کی بحالی، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور باہمی تعاون پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں مشترکہ معیشت، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ مذکورہ امن معاہدے کو باضابطہ طور پر سہ فریقی معاہدہ کہا جاتا ہے۔

      یہ بھی پڑھیں: 

      یہ بات قابل ذکر ہے کہ سال 2016 میں سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے، جب تہران میں ایک ہجوم نے سعودی عرب کے ایک ممتاز شیعہ عالم شیخ نمر کی پھانسی کے ردعمل میں سعودی سفارت خانے میں توڑ پھوڑ کی تھی۔

      اس کے بعد سے آپسی میل جول کا عمل 2021 میں شروع ہوا جس میں عمان اور عراق نے سہولت کار کے طور پر کام کیا، لیکن یہ تقریباً دو سال تک آگے بڑھنے میں ناکام رہا۔
      Published by:Mohammad Rahman Pasha
      First published: