اپنا ضلع منتخب کریں۔

    ہندوستان نے پاکستان کو بھیجا نوٹس، Indus Water Treaty خطرے میں! یہ ہے بڑی وجہ

    Indus Water Treaty of 1960: ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 19 ستمبر 1960ء میں دریائے سندھ اور دوسرے دریاوں کا پانی منصفانہ طور پر حصہ داری کا معاہدہ ہوا تھا، جو سندھ طاس معاہدہ کہلاتا ہے۔

    Indus Water Treaty of 1960: ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 19 ستمبر 1960ء میں دریائے سندھ اور دوسرے دریاوں کا پانی منصفانہ طور پر حصہ داری کا معاہدہ ہوا تھا، جو سندھ طاس معاہدہ کہلاتا ہے۔

    Indus Water Treaty of 1960: ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 19 ستمبر 1960ء میں دریائے سندھ اور دوسرے دریاوں کا پانی منصفانہ طور پر حصہ داری کا معاہدہ ہوا تھا، جو سندھ طاس معاہدہ کہلاتا ہے۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Delhi, India
    • Share this:
      ہندوستان نے پاکستان کو 1960 کے Indus Water Treaty میں ترمیم کے لیے نوٹس جاری کر دیا ہے۔ جمعہ کو یہ معلومات دیتے ہوئے سرکاری ذرائع نے بتایا کہ یہ نوٹس اسلام آباد کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد کے موقف کی وجہ سے جاری کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ نوٹس انڈس واٹر کمشنرز کے ذریعے 25 جنوری کو بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ Indus Water Treaty معاہدے کو عملی جامہ پہنانے میں ہندوستان ایک مضبوط حامی اور ذمہ دار شراکت دار رہا ہے۔

      ذرائع نے بتایا کہ "پاکستان کے اقدامات نے سندھ طاس معاہدے کی دفعات اور اس پر عمل درآمد کو بری طرح متاثر کیا اور ہندوستان کو اس میں ترمیم کے لیے مناسب نوٹس جاری کرنے پر مجبور کیا"۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان نے نو سال کی بات چیت کے بعد 1960 میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں عالمی بینک بھی شامل تھا۔ اس معاہدے کے مطابق، کچھ استثناء کے علاوہ، ہندوستان مشرقی دریاؤں کا پانی بغیر کسی پابندی کے استعمال کر سکتا ہے۔ ہندوستان سے متعلق دفعات کے تحت ہندوستان کو دریائے راوی، ستلج اور بیاس کا پانی نقل و حمل، بجلی اور زراعت کے لیے استعمال کرنے کا حق دیا گیا تھا۔

      قابل ذکر ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 19 ستمبر 1960ء میں دریائے سندھ اور دوسرے دریاوں کا پانی منصفانہ طور پر حصہ داری کا معاہدہ ہوا تھا، جو سندھ طاس معاہدہ کہلاتا ہے۔

      سال 2015 میں پاکستان نے ہندوستانی کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں پر تکنیکی اعتراضات کی تحقیقات کے لیے ایک غیر جانبدار ماہر کی تقرری کی درخواست کی تھی۔ سال 2016 میں پاکستان نے یکطرفہ طور پر اس درخواست سے دستبردار ہو کر ان اعتراضات کو ثالثی عدالت میں لے جانے کی تجویز پیش کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کا یہ یکطرفہ قدم معاہدے کے آرٹیکل 9 میں تنازعات کے حل کے لیے بنائے گئے طریقہ کار کی خلاف ورزی ہے۔

      ایئرانڈیا پر DGCA کی کارروائی، لگایا 30 لاکھ کا جرمانہ، پائلٹ کا لائسنس منسوخ

      ونگٹےکھڑےکردیگی جہازحادثے کی خطرناک کہانی، لاشیں کھاکرزندہ تھےلوگ، پہاڑسےٹکرا گیاتھاطیارہ

      اسی مناسبت سے ہندوستان نےاس معاملے کو کسی غیر جانبدار ماہر کے پاس بھیجنے کی ایک الگ سے ایک الگ درخواست کی۔ ذرائع نے کہا، "ایک ہی سوال پر بیک وقت دو عمل شروع کرنے اور متضاد یا غیر متضاد نتائج کی طرف لے جانے کا امکان ایک غیر معمولی اور قانونی طور پر ناقابل برداشت صورت حال پیدا کرے گا جو سندھ آبی معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔"انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک نے 2016 میں اس کو تسلیم کیا تھا اور دو متوازی عمل شروع کرنے سے روکنے کا فیصلہ کیا تھ جابکہ ہندوستان اور پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ باہمی طور پر ہم آہنگ راستہ تلاش کریں۔
      ذرائع نے بتایا کہ ہندوستان  کی جانب سے باہمی طور پر قابل قبول راستہ تلاش کرنے کی بار بار کوششوں کے باوجود پاکستان نے 2017 سے 2022 کے دوران مستقل انڈس کمیشن کے پانچ اجلاسوں میں اس پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مسلسل اصرار پر ورلڈ بینک نے حال ہی میں غیر جانبدار ماہر اور ثالثی عدالت کے عمل کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسی مسئلے پر متوازی غور سندھ طاس معاہدے کی دفعات کے دائرے میں نہیں آتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس طرح ہندوستان  سندھ طاس معاہدے کی دفعات کی خلاف ورزی کے پیش نظر ترمیم کا نوٹس دینے پر مجبور ہوا۔
      Published by:Sana Naeem
      First published: