اپنا ضلع منتخب کریں۔

    شام میں چل رہی جنگ کو روکنے ایران پہنچے گئے پتن، جانئے کیا ہے استانا پیس پروسیس؟

    عرب ورلڈ میں اہم حصہ رکھنے والے شام کے سبب علاقے میں بدامنی کا ماحول لمبے وقت سے چل رہا ہے۔ جنگ کو ختم کرنے کے لئے ایران، روس اور ترکی نے ’استانا پیس پروسیس‘ کی شروعات کی ہے۔ حالانکہ ابھی تک کوئی ٹھوس فیصلہ پر تینوں ممالک کی رضامندی نہیں بن پائی ہے۔

    عرب ورلڈ میں اہم حصہ رکھنے والے شام کے سبب علاقے میں بدامنی کا ماحول لمبے وقت سے چل رہا ہے۔ جنگ کو ختم کرنے کے لئے ایران، روس اور ترکی نے ’استانا پیس پروسیس‘ کی شروعات کی ہے۔ حالانکہ ابھی تک کوئی ٹھوس فیصلہ پر تینوں ممالک کی رضامندی نہیں بن پائی ہے۔

    عرب ورلڈ میں اہم حصہ رکھنے والے شام کے سبب علاقے میں بدامنی کا ماحول لمبے وقت سے چل رہا ہے۔ جنگ کو ختم کرنے کے لئے ایران، روس اور ترکی نے ’استانا پیس پروسیس‘ کی شروعات کی ہے۔ حالانکہ ابھی تک کوئی ٹھوس فیصلہ پر تینوں ممالک کی رضامندی نہیں بن پائی ہے۔

    • Share this:
      تہران: یوکرین-روس جنگ کے وسطی ایران، ترکی اور روس شام میں چل رہے 11 سال لمبی جنگ کو روکنے کے لئے ایران کی راجدھانی میں ہو رہے ایک اجلاس میں حصہ لینے جا رہے ہیں۔ اس میٹنگ کی میزبانی ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کر رہے ہیں۔

      تینوں ممالک اس جنگ میں کسی نہ کسی طور پر شامل ہیں۔ ایک طرف جہاں روس اور ایران شام کی حکومت کی حمایت میں ہیں تو وہیں دوسری طرف ترکی مخالفین کے ساتھ کھڑا ہے۔

      عرب دنیا میں اہم حصہ رکھنے والے شام کے سبب علاقے میں بدامنی کا ماحول لمبے وقت سے چل رہا ہے۔ جنگ کو ختم کرنے کے لئے ایران، روس اور ترکی نے ‘استانہ پیس پروسیس‘ کی شروعات کی ہے۔ حالانکہ ابھی تک کوئی ٹھوس فیصلے پر تینوں ممالک کی رضامندی نہیں بن پائی ہے۔

      اتفاق رائے نہ بننے کی ایک وجہ ترکی کے سخت تیور بھی ہیں۔ اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی ترکی کے صدر ریسیپے تئیپے اردودغان نے کرد شدت پسندوں کے خلاف شمالی شام میں ایک نیا حملہ شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ وہیں، ایران نے ترکی کے اس تبصرہ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ترکی کی کوئی بھی فوجی کارروائی علاقے کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔

      یوکرین-روس جنگ کے بعد پہلی بار اردوغان سے ملیں گے پتن

      یوکرین-روس جنگ شروع ہونے کے بعد سے ہی معاہدے کو لے کر ترکی کے صدر ریسیپ تئیپے اردوغان روس کے صدر سے ملنا چاہتے تھے۔ اب تہران میں دونوں لیڈر جب ملیں گے تو یوکرین روس پر بھی بات چیت ہونے کا مضبوط امکان ہے۔

      ترکی بھی کرنا چاہتا ہے روس جیسا حملہ

      روسی تجزیہ کار ولادیمیر سوتنیکوف نے نیوز ایجنسی اے ایف آئی کو بتایا کہ اس سمٹ کا وقت کوئی اتفاق نہیں ہے۔ ترکی بھی شام میں خصوصی فوجی مہم چلانا چاہتا ہے، جیسا کہ روس نے یوکرین میں کیا ہے۔ شام کے صدر بشارالاسد کے تئیں وفادار رہنے والے کرد جنگجووں اور ISIS دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سال 2016 سے ہی ترکی فوجی حملے کر رہا ہے، لیکن اب روس کی ہی طرح وہ شام کے اندر ایک خصوصی فوجی مہم چلانا چاہتا ہے۔

      پتن سے ہری جھنڈے چاہتے ہیں اردوغان

      کرد جنجگووں کو ترکی لمبے وقت سے دہشت گرد تنظیم مانتا آیا ہے۔ یہ تنظیم لمبے وقت سے ترکی میں ایک الگ ملک کردستان کا مطالبہ کررہا ہے۔ اس مطالبہ کے لئے کرد جنگجو اکثر ترکی کی فوج پر پُرتشدد حملے بھی کرتے آئے ہیں، جس میں گزشتہ کچھ سالوں میں ہی دونوں طرف سے ہزاروں لوگوں نے اپنی جان گنوا دی ہے۔ ترکی کی غیر ملکی پالیسی میں  تخصص رکھنے والے اسکالر سنان الگین نے بھی مانا ہے کہ ترکی اپنا فوجی آپریشن شروع کرنے سے پہلے ماسکو اور ایران کی رضامندی چاہتا ہے۔

      یہ بھی پڑھیں۔

      Sri Lanka: سری لنکا کے حالات پر آل پارٹی میٹنگ طلب، وزیرخارجہ جے شنکر اور وزیر خزانہ سیتا رمن کریں گے شرکت

      ترکی کے لئے یہ خصوصی طور پر اس لئے بھی اہم ہے، کیونکہ دو ممکنہ ہدف والے علاقے اس وقت روسی کنٹرول میں ہیں۔ ترکی ان دونوں علاقوں میں کم نقصان کے لئے جنگجو طیاروں کا استعمال کرنا چاہتے ہیں، جس کے لئے روس کی رضامندی ضروری ہے۔

      ایران بھی ان علاقوں میں اپنے شیعہ ملیشیا کے توسط سے ایک بالواسطہ موجودگی رکھتا ہے۔ حالانکہ جب دونوں ملک ترکی کو شام میں حملہ نہ کرنے کا اشارہ کرچکے ہیں، تو ایسا مشکل ہی ہے کہ ترکی کو سیدھے حملے کی ہری جھنڈی مل سکے۔
      Published by:Nisar Ahmad
      First published: