اپنا ضلع منتخب کریں۔

    خدا کسی کو نہ دکھائے ایسا دن! زلزلے میں گئی کنبے کے 25لوگوں کی جان، لاشوں سے لپٹ کر روتا رہا شخص، دردناک ہے واقعہ

    Youtube Video

    ادریس مردہ خانے پہنچے تو دیکھا کہ چاروں طرف لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ان ڈھیروں میں سے وہ ایک ایک کر کے اپنے گھر والوں کو پہچانتے اور ان کی لاشوں کے پاس بیٹھ کر اپنی قسمت کو کوستے۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Turkey, Syria
    • Share this:
      ترکی اور شام میں آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے میں ایک شامی پناہ گزین نے اپنے خاندان کے 25 افراد کو کھو دیا۔ اس مہاجر کا نام احمد ادریس ہے۔ اس کا پورا خاندان جنگ زدہ شام سے فرار ہو کر ترکی کی سرحد پر واقع شیلٹر ہوم میں پناہ لینے آیا تھا۔ ایک بے گھر شامی احمد ادریس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ 2012 میں میرا پورا خاندان پناہ لینے کے لیے سراقب پہنچا تھا۔ سال 2020 میں شامی فوج نے ایک بار پھر سراقب کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ ہم اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں یہاں آئے تھے لیکن دیکھو یہاں قسمت نے ہمارے ساتھ کیا کر دیا ہے۔

      خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اپنے مردہ پوتے کو گلے لگاتے ہوئے ادریس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا- 'تم نے میرا دل دکھایا ہے۔ جو کچھ ہوا ہے اس کے ساتھ، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ میں نے اپنی بیٹی کھو دی اس کے دو بیٹے. میری بیٹی کے سسر کا خاندان؛ اس کی ساس اور اس کے بیٹے جن میں سے ایک کے بچے تھے، ایک بڑا خاندان اور کئی بیٹے بھی۔

      مہربانی کرکے بچالو، میں آپ کا غلام بن جاؤں گا، شام کے بچے کا ویڈیو دیکھ کر کانپ جائےگی روح

      کیا ہے آپریشن دوست، کیسےپاکستان کےساتھی کیلئےمسیحیٰ بنی ہندوستانی فوج، ترکی نے پاک کولتاڑا

      انہوں نے کہا کہ ہمیں 2012 سے جنگ کی ہولناکیوں کا سامنا ہے۔ شام چھوڑ کر ہم سراقب میں پناہ لینے آئے، لیکن ناانصافی تو دیکھو جو ہمارے پیچھے پڑی ہوئی، یہاں بھی ہمارے ساتھ برا حال ہوا۔ 6 فروری کو آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے سے ترکی اور شام میں 15000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں سب سے مہلک زلزلہ کا واقعہ ہے۔ نیپال میں 2015 میں آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد یہاں زیادہ ہے۔ نیپال کے سانحے میں آٹھ ہزار آٹھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
      Published by:Sana Naeem
      First published: