اپنا ضلع منتخب کریں۔

    ٹرمپ کے تحقیر آمیز ٹوئیٹ پر امریکی سفیر کی پاکستانی دفتر خارجہ میں طلبی

    پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی فائل فوٹو: رائٹرز۔

    پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی فائل فوٹو: رائٹرز۔

    اسلام آباد۔ پاکستان کے ’’جھوٹ اور دھوکے‘‘ کے تعلق سے امریکی صدر ڈونلٖڈ ٹرمپ کے غصے سے بھرے ٹوئیٹ کے خلاف احتجاج کے لئے آج پاکستان نے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کر لیا۔

    • UNI
    • Last Updated :
    • Share this:

      اسلام آباد۔  پاکستان کے ’’جھوٹ اور دھوکے‘‘ کے تعلق سے امریکی صدر ڈونلٖڈ ٹرمپ کے غصے سے بھرے ٹوئیٹ کے خلاف احتجاج کے لئے آج پاکستان نے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کر لیا۔ دوسری طرف پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے مسٹر ٹرمپ کے سخت الفاظ کو سیاسی شعبدہ بازی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو مسٹر ٹرمپ کے ٹوئیٹ کی وضاحت کے لئے پاکستانی دفترخارجہ میں طلب کیا گیا جس کی یہاں امریکی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے تصدیق کر دی ہے۔ اس موقع پر کیا بات چیت ہوئی اس کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ حکومت پاکستان کا بھی فوری طور پر اس ملاقات کے تعلق سے کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ۔


      کل ایک تحقیر آمیز حملے میں مسٹر ٹرمپ نے ٹوئیٹ کیا تھا کہ ’’امریکہ نے گزشتہ پندرہ برسوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی مدد دی ہے لیکن بدلے میں جھوٹ اور فریب کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے رہنما بے وقوف ہیں۔ اس طرح وہ [پاکستان] ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہ دیتا رہا جن کے لئے ہم افغانستان میں خاک چھانتے رہے ۔ [مگر یہ]اب اور نہیں‘‘۔اس بیان کے بعد پاکستانی وزیرخارجہ اور وزیردفاع کی جانب سے فوری ردعمل میں ایک مرتبہ پھر کہا گیا کہ ملک نے افغانستان میں امریکی عسکری مداخلت کے بعد امریکہ کے لیے بہت کچھ کیا اور القاعدہ کے خاتمے میں امریکہ کی مدد کی، جس کے بعد اسے فقط ’طعنے اور بداعتمادی‘ ملی۔ پاکستان کے تعلق سے ٹرمپ کے سخت الفاظ کی کئی ملکوں نے ستائش کی ہے لیکن پاکستان کے دیرینہ اتحادی چین نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے پاکستان کے ریکارڈ کا دفاع کیا۔


      پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی آج ہی ایک کابینی میٹنگ طلب کررہے ہیں جس میں مسٹر ٹرمپ کے ٹوئیٹ پر غور کیا جائے گا۔ کل یعنی بدھ کو پاکستان کے اعلی فوجی اور غیر فوجی سربراہاں کی بھی ایک میٹنگ ہوگی جس میں امریکہ سے بگڑتے ہوئے تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کئی برسوں سے کشیدہ چلے آرہے ہیں جس کی وجہ ملی ٹینٹوں کے حقانی نیٹ ورک کی مبینہ پاکستانی تائید ہے۔ حقانی گروپ افغان طالبان کے ساتھ اتحاد رکھتا ہے۔ امریکہ کا یہ بھی الزام ہے کہ سینیئر افغان طالبان کمانڈر پاکستان میں ہی موجود ہیں۔ 2016 میں پاکستان میں ہی امریکہ کے ایک ڈرون حملے میں اس وقت کے طالبان لیڈر ملا منصور کی ہلاکت ہوئی تھی۔ 2011 میں امریکہ نے القاعدہ لیڈر اسامہ بن لادن کو بھی پاکستان میں ہی موجود پاکر ایبٹ آباد میں ہلاک کردیا تھا ، جو پاکستانی چھاؤنی والا شہر ہے ۔


      امریکہ نے پاکستان کو اشارہ دے دیا ہے کہ اگر اس نے حقانی نیٹ ورک کے ملی ٹینٹوں کی مدد کرنا یا ان سے چشم پوشی کرنا بند نہیں کیا تو نہ صرف امداد بند کردی جائے گی بلکہ دوسرے تادیبی اقدامات بھی کئے جائیں گے۔ حقانی نیٹ ورک کے جنگجو پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوکر حملے کرتے ہیں۔ امریکہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان پر الزام عائد کرتا آ رہا ہے کہ وہ ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا قریبی اتحادی ہونے کا دعویدار ہے، دوسرری طرف وہ پس پردہ افغانستان میں مقامی اور غیرملکی فورسز پر حملوں میں ملوث جنگجو گروپوں کی معاونت بھی کرتا ہے۔ پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ موقف اپناتا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے ہزاروں شہری مارے گئے اور اس کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ واضح رہے کہ 2001 میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک اتحاد قائم کيا تھا۔ بعد میں امریکی حکام کو یہ شکایت پیدا ہوگئی کہ افغانستان میں خون ریز حملوں میں ملوث حقانی نیٹ ورک اور پاکستانی فوج کے درمیان رابطے قائم ہیں۔

      First published: