افغانستان پر بحث میں روچیرا کمبوج نے کہا’طالبان-القاعدہ کے درمیان تعلقات سے علاقہ متاثر‘

افغانستان پر بحث میں روچیرا کمبوج نے کہا’طالبان-القاعدہ کے درمیان تعلقات سے علاقہ متاثر‘

افغانستان پر بحث میں روچیرا کمبوج نے کہا’طالبان-القاعدہ کے درمیان تعلقات سے علاقہ متاثر‘

کمبوج نے کہا کہ افیون پوست کی کاشت افغانستان میں سب سے بڑی غیر قانونی اقتصادی سرگرمی بنی ہوئی ہے، جس میں میتھیمفیٹامین منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ مسلسل عروج پر ہے۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Washington
  • Share this:
    اقوام متحدہ سلامتی کونسل (یواین ایس سی) مین افغانستان پر بات چیت کے دوران اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مستقل نمائندہ  روچیرا کمبوج نے ہندوستان کا موقف پیش کیا ہے۔ روچیرا کمبوج نے یو این ایس سی میں کہا کہ طالبان اور القاعدہ کے درمیان گہرے تعلقات بنے ہوئے ہیں اور برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ اور اس کی اہم قیادت اور متعلقہ گروپوں کی افغانستان اور علاقے دونوں میں موجودگی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس سے افغانستان اور اس کے آس پاس کے علاقے متاثر ہورہے ہیں۔

    افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش
    انہوں نے کہا کہ کابل میں انتظامیہ پوری طرح سے طالبانی ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ گروپوں نے پالیسیوں کو الٹ دیا ہے اور وہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے کیے گئے معاہدوں سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ کمبوج نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ نیز جامع طرز حکمرانی میں پیش رفت کا فقدان ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:
    پاک فوج نے بنوں کا محاصرہ کیا ختم، عسکریت پسند، 6 آرمی اور سی ٹی ڈی ہلاک، آخرکیاہے معاملہ؟

    یہ بھی پڑھیں:

    کمبوج نے کہا کہ افیون پوست کی کاشت افغانستان میں سب سے بڑی غیر قانونی اقتصادی سرگرمی بنی ہوئی ہے، جس میں میتھیمفیٹامین منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ مسلسل عروج پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے اپریل میں افیون پوست کی کھیتی سمیت نشیلے مادوں کے استعمال اور اسمگلنگ پر پابندی لگانے کے فرمان جاری کرنے کے باوجود اقوام متحدہ نے 2021 کے دوران افیون کی کھیتی میں 32 فیصدی کا اضافہ درج کیا ہے۔ ساتھ ہی 2022 میں افیون کی کھیتی پر پابندی کے اعلان کی وجہ سے افیون کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔
    Published by:Shaik Khaleel Farhaad
    First published: