رہائی کے حکم کے بعد پھر گرفتار ہوئی عمران خان کی قریبی شیرین مزاری، پاک فوج کے سربراہ نے کہی یہ بات

رہائی کے حکم کے بعد پھر گرفتار ہوئی عمران خان کی قریبی شیرین مزاری، پاک فوج کے سربراہ نے کہی یہ بات

رہائی کے حکم کے بعد پھر گرفتار ہوئی عمران خان کی قریبی شیرین مزاری، پاک فوج کے سربراہ نے کہی یہ بات

ملک کی سب سے بڑی پارٹی تشدد کیوں چاہے گی؟ خان نے کہا، ہم نہیں کرتے، یہ کوئی اور ہے جو تشدد چاہتا ہے۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Islamabad
  • Share this:
    پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی قریبی معاون شیرین ماری کو ایک عدالت کے حکم پر جیل سے رہا کیے جانے کے کچھ ہی گھنٹے بعد پیر کو پھر سے گرفتار کرلیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بنچ نے کسی دیگر معاملے میں مزاری کی ضرورت نہ ہونے پر عہدیداروں کو انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

    57 سالہ مزاری نے عمران خان کے اقتدار میں 2018 سے 2022 تک وزیرانسانی حقوق کے طور پر کام کیا تھا۔ ان کے وکیل احسان پیرزادہ نے کہا کہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا ہونے کے کچھ ہی دیر بعد پنجاب پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔

    پیرزادہ نے ٹویٹ کیا کہ 10 دنوں میں یہ چوتھی بار ہے جب مزاری کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ اسے کہاں لے گئے ہیں،" انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ عدالت کی جانب سے رہائی کے حکم کے فوراً بعد انہیں اڈیالہ جیل کے باہر سے گرفتار کیا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:

    گیانا میں ایک اسکول کے ہاسٹل میں لگی بھیانک آگ، 19 بچوں کی موت، 9 دیگر زخمی

    پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) صدر خان نے مزاری کی پھر سے گرفتاری پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے اس طرح کی کارروائی طاقت کے غلط استعمال کو ظاہر کرتی ہے۔ ٹوئٹر اسپیس کے ذریعے سے حامیوں کو خطاب کرتے ہوئے خان نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کا موازنہ جرمنی میں ہوئے نازی قتل سے کیا۔

    یہ بھی پڑھیں:

    سڈنی میں پی ایم مودی، آج اولمپک پارک میں ہندوستانی کمیونٹی سے کریں گے خطاب

    انہوں نے کہا کہ نو مئی کے مخالف مظاہروں کے دوران آگ زنی کے بہانے ان کی پارٹی پر کی گئی کارروائی ناانصافی پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی گزشتہ 27 سالوں سے پرامن مظاہروں کی وکالت کرتی رہی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی تشدد کیوں چاہے گی؟ خان نے کہا، ہم نہیں کرتے، یہ کوئی اور ہے جو تشدد چاہتا ہے۔
    Published by:Shaik Khaleel Farhaad
    First published: