واشنگٹن۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی کے طور پر تسلیم کئے جانے کی امریکی غیر ملکی حکام اور امریکی اتحادیوں نے یہ کہہ کر مخالفت شروع کر دی ہے کہ اس سے تشدد بھڑک سکتا ہے۔ امریکی حکام کا خیال ہے کہ اس کا اطلاق نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہ دہائیوں پرانی امریکی پالیسی کی بھی خلاف ورزی ہوگی، جس میں یروشلم پر فیصلے کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے بھروسے پر چھوڑ دیا گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان یروشلم پر بات چیت کرنے اور فیصلہ سازی کی بنیاد پر ہی یہ پالیسی بنائی گئی تھی۔
حکام نے کہا کہ اگر مسٹر ٹرمپ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی کی حیثیت سے منظوری دے دیتے ہیں تو پوری دنیا کے مسلمان یا فلسطینی حامی پرتشدد مظاہرے شروع کر سکتے ہیں۔ یروشلم کا معاملہ اس لیے بھی حساس ہے کیونکہ وہاں یہودیوں کا مقدس معبد (ٹیمپل ڈوم) اور مسلمانوں کا مقدس حرم بھی موجود ہے۔ اسلام میں تیسرا سب سے مقدس مقام مسجد اقصی وہیں قائم ہے۔
ایک امریکی اہلکار نے گزشتہ ہفتہ بتایا تھا کہ مسٹر ٹرمپ اس بارے میں کل تک اعلان کر سكتے ہیں جبکہ اس مسئلہ پر مسٹر ٹرمپ کے مشیر اور داماد جیرڈ كشنر نے آج کہا کہ امریکی صدر نے یروشلم کو باضابطہ طور پر اسرائیل کی راجدھانی کے طور پر تسلیم کرنے پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اور وہ اس کے تمام پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں۔
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔