جموں و کشمیر : بید بافی کے فن کو آج بھی کچھ لوگ رکھے ہوئے ہیں زندہ
غلام محمد گورو بید کی ٹوکریاں بنانے کے علاوہ گھاس سے بنائی جارہی حصیر یعنی چٹائی جسے کشمیری میں عرف عام وَگُو کہتے ہیں ، بھی بناتے ہیں ۔ تاہم یہ کام اب زوال پذیر ہو رہا ہے ۔
- News18 Urdu
- Last Updated: Jul 19, 2020 05:21 PM IST

جموں و کشمیر : بید بافی کے فن کو آج بھی کچھ لوگ رکھے ہوئے ہیں زندہ
وادی کشمیرمیں ہاتھوں سے بنائی جارہی بید کی ٹوکریاں اور دیگراشیا بنانے کےفن کے ساتھ آج بھی کچھ لوگ منسلک ہیں ۔ خواجہ باغ مَلورہ شالہ ٹینگ سرینگرسے تعلق رکھنے والےغلام محمد پچھلے پینتیس سالوں سے اس کام کے ساتھ منسلک ہیں ۔ یہ علاقہ بید بافی یعنی بید کی ٹوکریاں بنانے والے کاریگروں کا ایک مرکز مانا جاتا ہے ۔ وادی کشمیردنیا بھر میں دست کاری کی صنعت میں کافی مشہور ہے ۔ یہاں قدیم دور سے ہی دست کاری کے ہر میدان میں کاریگروں نے اپنا لوہا منوایا اور دنیا بھر میں ایک الگ پہچان قائم کی ۔ ٹیکنالوجی کے بڑھتے رجحان کے باوجود بھی کشمیر میں دست کار مختلف قسم کی کاریگری اور فن کاری میں اپنی الگ پہچان قائم کئے ہوئے ہیں ۔
غلام محمد گورو بید کی ٹوکریاں بنانے کے علاوہ گھاس سے بنائی جارہی حصیر یعنی چٹائی جسے کشمیری میں عرف عام وَگُو کہتے ہیں ، بھی بناتے ہیں ۔ تاہم یہ کام اب زوال پذیر ہو رہا ہے ۔ غلام محمد گورو نے نیوز 18 اردو کو بتایا کہ آہستہ آہستہ حالات کے تبدیل ہونے سے یہ صنعت بھی روبہ زوال ہوگئی ۔ اس کی مثال اس بات سے لگائی جائے کہ پہلے دنیا بھرکے سیاح ان چیزوں کو کشمیر کی نشانی اور نمونے کے طور پر شوق سے خرید تے تھے ۔ اب اس میں بھی بہت زیادہ کمی آئی ہے ۔ غلام محمد گورو مختلف ڈیزائنوں کے ساتھ مختلف ٹوکریاں ، کرسیاں ، گملے اور دیگر اقسا م کے اشیا بناتے ہیں ۔
غلام محمد نے نیوز 18 اردو کو بتایا کہ نئی نسل کے جوان اس دست کاری کو سیکھنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نئی نسل اگر یہ کام سیکھ لیتی ، تو وہ اپنے پاوں پر کھڑا ہو کر اپنا روزگارخود ہی پیدا کرسکتی ہے ۔ غلام محمد گورو شالہ ٹینگ سرینگر سے درجن بھر مختلف اقسام کی ٹوکریاں اپنے گدھے پر لاد کرروزانہ تیس چالیس کلومیٹر کی مسافت طے کر کے مختلف علاقوں اور گاؤں دیہات میں جاکر فروخت کرکے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں ۔