اپنا ضلع منتخب کریں۔

    نوٹ بندی کے باوجود کرنسی کا چلن چھ سال میں ہوا دوگنا، ملک میں 32.42 لاکھ کروڑ کی کرنسی موجود

    نوٹ بندی کے باوجود کرنسی کا چلن چھ سال میں ہوا دوگنا، ملک میں 32.42 لاکھ کروڑ کی کرنسی موجود

    نوٹ بندی کے باوجود کرنسی کا چلن چھ سال میں ہوا دوگنا، ملک میں 32.42 لاکھ کروڑ کی کرنسی موجود

    نوٹ بندی کی وجہ سے سی آئی سی میں تقریباً 8،99،700 کروڑ روپے (6 جنوری، 2017 تک) کی گراوٹ آئی، جس کے نتیجے میں بینکنگ سسٹم کے پاس سرپلس لیکویڈیٹی میں اضافہ درج کیا گیا۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • New Delhi, India
    • Share this:
      سپریم کورٹ نے پیر کو نوٹ بندی پر حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ حالانکہ حکومت کے اعدادوشمار ہی بتاتے ہیں کہ 2016 کے نومبر مہینے میں ہوئی نوٹ بندی کا ملک میں چلن میں موجود کرنسی (سی آئی سی) پر کوئی واضح اثر نہیں پڑا ہے۔ یہ فیصلہ ان اہدات کو بہت حد تک نہیں حاصل کرپایا جس کی وجہ سے یہ فیصلہ لیا گیا تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے آٹھ نومبر 2016 کو 500 اور 1000 روپے کے پرانے نوٹوں کو چلن سے باہر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اس بڑے فیصلے کا ایک اہم مقصد ڈیجیٹل ادائیگی کو فروغ دینا اور بلیک منی کے بہاو پر قدغن لگانا تھا۔

      آن لائن ادائیگی کا چلن بڑھنے کے باوجود نقدی کے استعمال میں اضافہ
      حالانکہ سچائی یہ ہے کہ آن لائن ادائیگی کا چلن بڑھنے کے باوجود ملک میں نقدی کا استعمال بڑھ کر دوگنا ہوگیا ہے۔ ریزرو بینک کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں چلن میں موجود کرنسی (سی آئی سی) چار نومبر 2016 کو 17.74 لاکھ کروڑ روپے پر پہنچ گئی۔ اعدادوشمار کے مطابق حالانکہ نوٹ بندی کے ٹھیک بعد چلن میں موجود کرنسی چھ جنوری 2017 کو گھٹ کر قریب نو لاکھ کروڑ روپے پر آگئی۔ یہ چار نومبر 2016 کو چلن میں موجود کرنسی 17.74 لاکھ کروڑ روپے کے مقابلے میں قریب 50 فیصد تھی۔

      یہ بھی پڑھیں:
      جنوری میں 13 دنوں تک بند رہیں گے بینک، آخری ہفتہ میں زیادہ چھٹیاں

      یہ بھی پڑھیں:
      مکیش امبانی کا  کمال، 20 سالوں میں 20 گُنا بڑھاریلائنس کا منافع، سرمایہ کار ہوئے مالا مال

      نوٹ بندی کے فوری بعد سی آئی سی میں قریب نو لاکھ کروڑ روپے کی آئی گراوٹ تاہم پھر بھی بڑھا کیش سے لین دین
      نوٹ بندی کی وجہ سے سی آئی سی میں تقریباً 8،99،700  کروڑ روپے (6 جنوری، 2017 تک) کی گراوٹ آئی، جس کے نتیجے میں بینکنگ سسٹم کے پاس سرپلس لیکویڈیٹی میں اضافہ درج کیا گیا۔

      وہیں دوسری جانب، کیش ریزرو ریشو (آر بی آئی کے پاس جمع رقم کے فیصد کے طور پر) میں تقریباً 9 فیصد پوائنٹس کی کمی درج کی گئی۔ یہ ریزرو بینک کے لیکویڈیٹی مینجمنٹ آپریشنز کے لیے ایک چیلنج تھا۔ مرکزی بینک نے بینکاری نظام میں اضافی لیکویڈیٹی کو جذب کرنے کے لیے لیکویڈیٹی ایڈجسٹمنٹ فیسیلٹی (ایل اے ایف) کے تحت اپنے آلات، خاص طور پر ریورس ریپو آکشنز کا استعمال کیا۔
      Published by:Shaik Khaleel Farhaad
      First published: