اپنا ضلع منتخب کریں۔

    اب ڈینگو، چکن گونیا اور ملیریا وبائی امراض ایکٹ کے تحت قراردی گئی بیماریاں، سرکاری نوٹیفکیشن جاری

    یہ نوٹیفکیشن تمام ہسپتالوں کے لیے لازمی قرار دیتا ہے کہ وہ حکومت کو ہر ایسے کیس کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ جو کہ ڈینگو dengue، چکن گونیا chikungunya اور ملیریا malaria سے وابستہ ہو۔

    یہ نوٹیفکیشن تمام ہسپتالوں کے لیے لازمی قرار دیتا ہے کہ وہ حکومت کو ہر ایسے کیس کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ جو کہ ڈینگو dengue، چکن گونیا chikungunya اور ملیریا malaria سے وابستہ ہو۔

    یہ نوٹیفکیشن تمام ہسپتالوں کے لیے لازمی قرار دیتا ہے کہ وہ حکومت کو ہر ایسے کیس کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ جو کہ ڈینگو dengue، چکن گونیا chikungunya اور ملیریا malaria سے وابستہ ہو۔

    • Share this:
      ایک سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ڈینگو dengue، چکن گونیا chikungunya اور ملیریا malaria کو وبائی امراض ایکٹ Epidemic Diseases Act کے تحت قابل ذکر بیماریوں کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ یہ نوٹیفکیشن تمام ہسپتالوں کے لیے لازمی قرار دیتا ہے کہ وہ حکومت کو ہر ایسے کیس کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ جو کہ ڈینگو dengue، چکن گونیا chikungunya اور ملیریا malaria سے وابستہ ہو۔

      ہسپتالوں کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر ان علاقوں کی نشاندہی کی جائے گی جہاں مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور انہیں متاثرہ علاقہ یا ’خطرہ زدہ‘ قرار دیا جائے گا۔ نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے افراد یا اداروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی جو مناسب اقدامات پر عمل نہیں کرتے یا حکام کو کیسز سے آگاہ نہیں کرتے۔

      قومی راجدھانی میں ڈینگی کے کیسوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پیر کو جاری ہونے والی شہری رپورٹ کے مطابق دہلی میں اس سال ڈینگو کے 1,000 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جس میں گزشتہ ہفتے 280 سے زیادہ کیس درج ہوئے ہیں۔ رواں سیزن میں ڈینگو کے کل کیسز میں سے 665 صرف رواں ماہ کے پہلے 23 دنوں میں ریکارڈ کیے گئے۔ شہر میں اس سیزن میں ویکٹر سے پیدا ہونے والی بیماری کی وجہ سے پہلی موت 18 اکتوبر کو ریکارڈ کی گئی۔

      ملیریا خطرناک کیوں؟

      واضح رہے کہ ملیریا ایک طفیلیہ ہے جو ہمارے خون کے خلیوں blood cells پر حملہ کرتا ہے اور اسے تباہ کر دیتا ہے اور یہ خون چوسنے والے مادہ انوفیلس مچھروں female Anopheles mosquitoes میں پایا جاتا ہے۔ ملیریا کے اس طفیلیہ کو مارنے کے لیے ادویات، کاٹنے سے بچنے کے لیے جال اور مچھر کو مارنے کے لیے کیڑے مار دوا نے ملیریا کو کم کرنے میں مدد کی ہے، لیکن اس بیماری کا سب سے بڑا بوجھ افریقہ میں محسوس کیا جاتا ہے، جہاں 260,000 سے زائد بچے 2019 میں اس بیماری سے مر گئے تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی بھی ویکسین کے ذریعہ قوت مدافعت بڑھانے میں اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ صرف شدید بیمار ہونے کے امکانات کو کم کرتا ہے۔

      ملیریا طفیلیہ کی 100 سے زیادہ اقسام ہیں۔ آر ٹی ایس، ایس ویکسین RTS,S vaccine ایک کو نشانہ بناتا ہے جو افریقہ میں سب سے زیادہ مہلک اور عام ہے، جسے پلازموڈیم فالسیپیرم (Plasmodium falciparum) کہا جاتا ہے اور یہی ملیریا کا سبب بن جاتا ہے۔ سنہ 2015 میں کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ویکسین ملیریا کے 10 میں سے چار متاثرین کو حفاظت فراہم کرسکتا ہے۔ وہیں 10 میں سے تین سنگین صورتوں میں اور خون کی منتقلی کی ضرورت والے بچوں کی تعداد میں ایک تہائی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

      تاہم اس وقت کئی طرح کے شکوک و شبہات تھے کہ ویکسین حقیقی دنیا میں کام کرے گی یا نہیں؟ کیونکہ اس کے لیے چار خوراکیں موثر ہونا ضروری ہیں۔ پہلے تین کو پانچ، چھ اور سات ماہ کی عمر میں دیا جاتا ہے۔ اس کے تقریبا 18 مہینوں میں ایک حتمی بوسٹر درکار ہوتا ہے۔
      Published by:Mohammad Rahman Pasha
      First published: