اپنا ضلع منتخب کریں۔

    لکھے ہوئے کرنسی نوٹ ناقابل استعمال ہوجاتےہیں؟ کیاہیں ریزرو بینک آف انڈیا کےقواعد؟

    کرنسی نوٹوں پر نہ لکھیں کیونکہ یہ ان کو خراب کرتا ہے اور ان کی زندگی کو کم کرتا ہے۔

    کرنسی نوٹوں پر نہ لکھیں کیونکہ یہ ان کو خراب کرتا ہے اور ان کی زندگی کو کم کرتا ہے۔

    پی آئی بی کے فیکٹ چیک ہینڈل نے مزید کہا کہ کلین نوٹ پالیسی کے تحت لوگوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ کرنسی نوٹوں پر نہ لکھیں کیونکہ یہ ان کو خراب کرتا ہے اور ان کی زندگی کو کم کرتا ہے۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Mumbai, India
    • Share this:
      کرنسی نوٹوں کے سلسلے میں کئی طرح کی افواہیں وائرل ہوتی رہتی ہیں۔ جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر کچھ بھی بات تو وہ بینکوں کی جانب سے جاری ہوتی ہے۔ جاری افواہوں کے دوران وضاحت کرتے ہوئے حکومت نے واضح کیا کہ ہندوستانی کرنسی نوٹوں پر لکھنے سے یہ نوٹ ناقابل استمعال نہیں ہوتی۔ حکومت ہند کا پریس انفارمیشن بیورو (Press Information Bureau) نے ایک وائرل پوسٹ کے بارے میں حقائق کا اظہار کیا ہے، جس میں دعوی کیا گیا کہ ’آر بی آئی کی نئی پالیسی کے حصے کے طور پر نوٹ پر کچھ بھی لکھا ہوا ہوں، تو وہ ناقابل استعمال ہوگی۔

      سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ میں مبینہ طور پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا (Reserve Bank of India) کے نئے رہنما خطوط کے مطابق نئے نوٹوں پر کچھ بھی لکھنے سے نوٹ غلط یا نا قابل استعمال ہو جاتا ہے اور یہ قانونی ٹینڈر نہیں رہے گا۔

      کیا بینک نوٹ پر کچھ لکھنے سے وہ نا قابل استعمال ہو جاتا ہے؟

      مذکورہ بالا پوسٹ کی حقیقت کیا ہے؟ کیا واقعی یہ درست ہے؟ اس پر پی آئی بی کے آفیشل فیکٹ چیک ہینڈل نے ٹوئٹر کیا ہے۔ ان سے کہا ہے کہ نہیں! ایسا نہیں ہے۔ لکھے ہوئے بینک نوٹ غلط نہیں ہیں اور یہ قانونی ٹینڈر برقرار رہتے ہیں۔

      تاہم آر بی آئی کے پاس کرنسی نوٹوں کے معیار اور لمبی عمر کو برقرار رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے کلین نوٹ پالیسی موجود ہے۔ اس پالیسی کے تحت شہریوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کرنسی نوٹوں کو خراب یا مسخ نہ کریں۔

      پی آئی بی کے فیکٹ چیک ہینڈل نے مزید کہا کہ کلین نوٹ پالیسی کے تحت لوگوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ کرنسی نوٹوں پر نہ لکھیں کیونکہ یہ ان کو خراب کرتا ہے اور ان کی زندگی کو کم کرتا ہے۔
      Published by:Mohammad Rahman Pasha
      First published: