بھوپال: ممتاز شاعر، فلم نغمہ نگار اور مفہوم القران کے مصنف کیف بھوپالی کی برسی کے موقع پر بھوپال میں ادبی مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا۔ کیف بھوپالی یادیں اور باتیں کے عنوان سے منعقدہ مذاکرہ میں بھوپال کے ممتاز دانشوروں نے شرکت کی اور حکومت سے کیف بھوپالی کی تخلیقات کو نصاب کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا۔
کیف بھوپالی کا نام محمد ادریس ہے، لیکن ادبی حلقوں میں وہ کیف بھوپالی کے نام سے مشہور ہوئے۔ کیف بھوپالی کی ولادت 20 فروری 1917 کو بھوپال میں ہوئی اور انتقال بھی اسی شہرغزل میں 24جولائی 1991کو ہوا۔ کیف کا آبائی وطن کشمیر ہے۔ کیف کے اجداد کشمیر سے لکھنؤ اورعہد شاہجہانی میں لکھنؤ سے بھوپال آئے تھے۔کیف کو شاعری کا فن وراثت میں ملا تھا۔
کیف کی والدہ صالحہ خانم عاجز بھی ایک اچھی شاعرہ تھی۔ کیف کی تعلیم و ذہنی تربیت بھوپال میں ہوئی ۔ کیف نے جس وقت شاعری کے میدان میں قدم رکھا تھا اس وقت بھوپال میں اہم شعرا کی ایک کہکشاں موجود تھی۔لیکن کیف نے ان سے الگ اپنے منفرد لب ولہجہ سے اردو شاعری میں اپنی الگ شناخت بنائی اور شاعر فطرت کہلائے۔
بزم کیف کے ذریعہ ہر سال کیف بھوپالی کی ولادت اور برسی کے موقعہ پر بھوپال میں سمینار اور مشاعرہ کا انعقاد کیا جاتا تھا مگر کورونا قہر کے سبب گزشتہ دو سالوں سے بڑی تقریب کا انعقاد نہیں کیا جا سکا ۔ امسال بزم کیف کے ذمہ داروں نے بڑی تقریب کا فیصلہ کیاتھا مگر شہر میں مسلسل بارش کے سبب یہ بھی ممکن نہیں ہوسکا ۔کیف بھوپالی کی برسی کے موقعہ پر بزم کیف کے زیر اہتمام مختصر ادبی مذاکرہ کا انعقاد کیاگیا۔ ادبی مذاکرہ میں بھوپال کے دانشوروں نے شرکت اور کیف بھوپالی کی حیات و ادبی خدمات پرتفصیل سے روشنی ڈالی۔
بزم کیف کے صدر قمر ثاقب نے نیوز ایٹین اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارا رشتہ کیف بھوپالی کے خانوادے سے ہے ۔ بزم کیف کے ذریعہ ہر سال کیف بھوپالی کی حیات و خدمت پر جلسہ،سمینار اورمشاعرہ کاانعقاد کیا جاتا تھا مگر کورونا قہر کے سبب دو سال سے یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ۔امسال بھی ارادہ کیاگیا تھا قومی سمینار کا مگر مسلسل بارش کے سبب ممکن نہیں ہوسکا۔ حالات سازگار ہونگے تو ان شا اللہ جلد ہی قومی سمینار کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ کیف بھوپالی جنہوں نے مختلف فنون میں اپنی خدمات انجام دیں ہیں انکی تخلیقات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
وہیں ممتاز دانشور ضیا صدیقی کہتے ہیں کہ کیف بھوپالی جیسا فطری شاعر بھوپال میں اب تک پیدا نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں ہندستانی عناصر کی جس طرح عکاسی کی ہے وہ بھوپال اور مدھیہ پردیش کے دوسرے شعرا کے یہاں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ کیف ترقی پسند نظریہ کے حامی ہوتے ہوئے بھی اسلامی عقائد کے حامی تھے اور انہوں نے قران کریم کا جو منظوم ترجمہ کیا ہے اس کو پڑھئے تو آنکھیں حیرت سے کھلی رہ جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں۔ کارگل وجے دیوس پر وزیر دفاع نے پاکستان کو وارننگ دی- کوئی بھی جنگ ہوا تو جیت ہندوستان کی ہوگیکیف بھوپال کو عام طور پر لوگ شاعر رومان کی حیثیت جانتے ہیں لیکن آج کی نسل کو یہ بات نہیں معلوم ہے کہ کیف بھوپالی نے قرا پاک کا منظوم ترجمہ بھی مفہوم القرآن کے نام سے لکھا تھا۔ کیف کی زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہیں کی کہ وہ قران پاک کا منظوم ترجمہ مکمل کر پاتے ۔انہوں نے اپنی زندگی میں قران کریم کے جو سولہ سپاروں کا منظوم ترجمہ کیاتھا اسے ان کی زندگی میں ولا اکادمی حیدر آباد،الہ آباد،بنارس اور بھوپال کے اخبارات نے تسلسل کے ساتھ شائع کیا تھا۔کتابی شکل میں مفہوم القران کو 1996 میں دبئی سے سلیم جعفری نے شائع کیا تھا۔
کیف بھوپالی کی دختر ڈاکٹر پروین کیف نے نیوز ایٹین اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اپنے والد کی تحریروں پر فخر ہوتا ہے۔ کیف بھوپالی نے جس میدان میں بھی قلم اٹھایا اس کا حق ادا کیا۔کیف بھوپالی نے اردو میں شاہکار نظموں اور غزلوں کے ساتھ فلموں میں بہترین نغمے لکھےتھے۔فلم پاکیزہ،دائرہ ،رضیہ سلطان، شنکر حسین وغیرہ میں انہوں نے جو گیت لکھے ہیں زمانہ گزرنے کے بعد آج بھی اس کی معنویت برقرار ہے ۔بس کوشش ہے کہ والد محترم سے جو کچھ سیکھا ہے اس کو آگے بڑھائیں اور انہوں نے انسانیت کی خدمت کے لئے جو رہنما نقوش چھوڑے ہیں اس کو آگے بڑھا سکیں۔
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔