اپنا ضلع منتخب کریں۔

    مدھیہ پردیش میں کئی سالوں کے بعد اقلیتی اداروں کے ضابطوں میں ترمیم سے متعلق غوروخوض

    مدھیہ پردیش میں کئی سالوں کے بعد اقلیتی اداروں کے ضابطوں میں ترمیم سے متعلق غوروخوض

    مدھیہ پردیش میں کئی سالوں کے بعد اقلیتی اداروں کے ضابطوں میں ترمیم سے متعلق غوروخوض

    ملک میں وقفیہ املاک کی نگرانی کے لئے 1954 میں وقف ایکٹ بنایا گیا تھا۔ پھر 1995 اور 2013 میں اس میں ترمیم کی گئی، مگر مدھیہ پردیش میں اب بھی برسوں پرانے وقف ایکٹ کے مطابق ہی کام کیا جا رہا ہے۔

    • Share this:
    بھوپال: ضابطہ اداروں کے نظم ونسق کو چلانے کی بنیاد ہوتے ہیں، مگر مدھیہ پردیش کی حکومتیں اقلیتی اداروں کے ضابطہ سے متعلق کبھی سنجیدہ نہیں ہوئی۔ ایسا نہیں ہے کہ موجودہ حکومت اقلیتی اداروں سے متعلق سنجیدہ نہیں بلکہ سابقہ حکومتوں کا رویہ بھی اقلیتی اداروں کے تئیں سرد مہری کا ہی رہا ہے۔ ملک میں وقفیہ املاک کی نگرانی کے لئے 1954 میں وقف ایکٹ بنایا گیا تھا۔ پھر 1995 اور 2013 میں اس میں ترمیم کی گئی، مگر مدھیہ پردیش میں اب بھی برسوں پرانے وقف ایکٹ کے مطابق ہی کام کیا جا رہا ہے۔

    وقف ترمیمی ایکٹ 14-2013 کے مطابق ریاستی حکومت نے اب تک اپنے رولس میں ترمیم ہی نہیں کی۔  2016 میں ایک کوشش شروع کی گئی تھی، جس کے بعد ایک میٹنگ ہوئی مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہے، اب پھر وقف ترمیمی ایکٹ کے مطابق ریاستی حکومت کےوقف رولس میں ترمیم کرنے کی قواعد شروع کی گئی ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت وقف بورڈ کے ایڈمنسٹریٹر دلیپ یادو کہتے ہیں کہ وقف ترمیمی ایکٹ 1995 کے بعد وقف ماڈل رولس وضع کیا جانا تھا، مگر 2013 کے ترمیمی ایکٹ کے بعد یہ نہیں کیا جاسکا۔

    سال 2016 میں ایک ماڈل ڈرافٹ تیارکیا گیا تھا، اسی کے سلسلے میں اس میٹنگ کا انعقاد کیا گیا ہے اور اس میں تمام پہلوؤں پرغورکرنے کے بعد جب کمیٹی حتمی مہرلگا دے گی، تب ہم اسے حکومت کی منظوری کے لئے بھیج دیں گے۔
    ایسا نہیں ہے کہ صرف وقف بورڈ میں برسوں پرانے قانون سے کام چلایا جا رہا ہے، بلکہ حج کمیٹی میں بھی یہی سب کچھ ہے۔ حج کمیٹی میں مرکزی حکومت 2000 کے بعد کئی ترمیمی کرچکی ہے، مگر مدھیہ پردیش میں اب بھی برسوں پرانے قانون سے ہی کام چلایا جا رہا ہے۔

    مدھیہ پردیش حکومت وقف بورڈ کے ایڈمنسٹریٹر دلیپ یادو کہتے ہیں کہ وقف ترمیمی ایکٹ 1995 کے بعد وقف ماڈل رولس وضع کیا جانا تھا، مگر 2013 کے ترمیمی ایکٹ کے بعد یہ نہیں کیا جاسکا۔
    مدھیہ پردیش حکومت وقف بورڈ کے ایڈمنسٹریٹر دلیپ یادو کہتے ہیں کہ وقف ترمیمی ایکٹ 1995 کے بعد وقف ماڈل رولس وضع کیا جانا تھا، مگر 2013 کے ترمیمی ایکٹ کے بعد یہ نہیں کیا جاسکا۔


    وقف بورڈ میں منعقدہ وقف بورڈ اور حج کمیٹی ترمیمی رولس کمیٹی کی میٹنگ کے ماہر ایم آر خان کہتے ہیں کہ ہمارے جو پرانے ماڈل رولس بنے ہوئے ہیں وہ 2000 کے ہیں اور جو ماڈل ترمیم کے ذریعہ قانون بناکر مرکزی حکومت کے ذریعہ ہمیں دیئے گئے ہیں ان کا پرانے قانون کی روشنی میں مطالعہ کرکے کیا ترمیم کی جا سکتی ہے  اس پر فیصلہ لینے کے لئے یہ کمیٹی بنائی گئی ہے۔ ہم لوگ تمام پہلوؤں پر غور کر کے اس کی سفارشات ریاستی حکومت کو بھیج دیں گے، اس کے بعد ریاستی حکومت اس پر حتمی فیصلہ لے گی۔
    واضح رہے کہ مدھیہ پردیش وقف بورڈ، حج کمیٹی، مساجد کمیٹی، مدرسہ بورڈ یہ ایسے ادارے ہیں، جہاں پر تقرری کا کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ اگر یہاں پر ماڈل رولس وضع کرکے قانون کا نفاذ کر دیا گیا ہوتا تو اقلیتی اداروں کے ملازمین کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ حکومت نے وقف بورڈ اور حج کمیٹی کے ماڈل رولس کو وضع کرنے کو لے کرکمیٹی تو تشکیل دے دی ہے اورکمیٹی کی میٹنگ کا بھی انعقاد ہوگیا، مگرکمیٹی کی سفارشات پر عمل کب ہوگا یہ دیکھنا ہوگا۔
    Published by:Nisar Ahmad
    First published: