اپنا ضلع منتخب کریں۔

    آسام شہریت معاملہ: پانچ رکنی بینچ نے دورکنی بینچ کے 13سوالات کو ایک سوال میں ضم کردیا

     آسام شہریت معاملہ: پانچ رکنی بینچ نے دورکنی بینچ کے 13سوالات کو ایک سوال میں ضم کردیا

    آسام شہریت معاملہ: پانچ رکنی بینچ نے دورکنی بینچ کے 13سوالات کو ایک سوال میں ضم کردیا

    سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے 1951 کے آسام شہریت ایکٹ میں کی گئی ترمیم کو چیلنچ کرنے والی پیٹشن پر سماعت کی ۔ سماعت کے دوران شکایت کنندہ کے وکلاء نے 14 نکات عدالت کے سامنے رکھے ۔ وکلاء کی بحث سننے کے بعد بینچ نے معاملہ کی سماعت 14 فروری تک کے لئے ملتوی کردیا ۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Delhi | New Delhi
    • Share this:
    نئی دہلی : سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے 1951 کے آسام شہریت ایکٹ میں کی گئی ترمیم کو چیلنچ کرنے والی پیٹشن پر سماعت کی ۔ سماعت کے دوران شکایت کنندہ کے وکلاء نے 14 نکات عدالت کے سامنے رکھے ۔ وکلاء کی بحث سننے کے بعد بینچ نے معاملہ کی سماعت 14 فروری تک کے لئے ملتوی کردیا ۔ ساتھ ہی دو رکنی بینچ کے ذریعہ تیارشدہ 13 سوالات کو پانچ رکنی آئینی بینچ نے ایک سوال میں ضم کردیا اورکہا کہ یہ سوالات بہت طویل ہیں، اس لئے اب محض ایک سوال پر بحث ہونی چاہئے کہ آیا شہریت ایکٹ 1985 کی دفعہ  6A آئین کے اعتبارسے جائز ہے یانہیں؟ ساتھ ہی تمام فریقین سے اسی ایک سوال کے پس منظرمیں چار ہفتہ کے اندر تحریری جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

    قابل ذکر ہے کہ آسام میں شہریت کے تعین کے لئے 1951کے شہریت ایکٹ میں سیکشن 6A شامل کرکے شہریت کی بنیاد25/مارچ 1971کو حتمی تاریخ تسلیم کئے جانے کو باقاعدہ پارلیمنٹ میں منظوری دی گئی تھی ۔ یہ ترمیم 15/اگست 1985کو آسام کی ریاستی سرکار اور مرکز کے درمیان ہوئے ایک اہم معاہدہ کی تکمیل میں کی گئی تھی، اس کے بعد آسام میں شہریت کا معاملہ تقریبا ختم ہوگیا تھا لیکن 2012 میں  سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے مطالبہ کیا گیا کہ شہریت کی بنیاد 25/مارچ 1971 کے بجائے 1951 کی ووٹرلسٹ کو بنایا جائے، اس کے ساتھ ساتھ اسی عرضی میں آسام معاہدہ کی قانونی حیثیت اورشہریت ایکٹ میں 6A کی دفعہ کے اندراج کو بھی چیلنچ کیاگیا ۔

    اس معاملہ کو سپریم کورٹ نے جسٹس رنجن گگوئی اورجسٹس نریمن پر مشتمل ایک دورکنی بینچ کے سپردکردیا جس نے 13 سوالات قائم کرکے مقدمہ کو ایک پانچ رکنی آئینی بینچ کے حوالہ کردیا ۔ اب یہی بینچ اس مقدمہ کی سماعت کررہی ہے، اس میں جمعیۃعلماء ہند بھی ایک فریق ہے ۔آج جمعیۃعلماء ہند اورآمسو کی طرف سے وکیل کپل سبل،اندراجے سنگھ اورایڈوکیٹ مصطفی خدام حسین وغیرہ پیش ہوئے اورجمعیۃ وآمسوکا موقف رکھا ۔ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی بھی عدالت میں موجودتھے ۔

    یہ بھی پڑھئے: دفعہ 370 کے خاتمہ کے بعد زمینی سطح پر کچھ نہیں بدلا،عمر عبداللہ نے بی جے پی پر سادھا نشانہ


    یہ بھی پڑھئے: 55 مسافروں کو چھوڑ کر ہی اڑ گیا تھا طیارہ، گو ایئر نے عملہ کو ہٹایا، مفت ٹکٹ کا اعلان



    واضح ہوکہ راجیوگاندھی کے دورحکومت میں جب شہریت ایکٹ میں ترمیم کرکے شہریت کے لئے 25/مارچ 1971کو کٹ آف تاریخ رکھا گیا تھا، تو اس ترمیم کو تمام اپوزیشن پارٹیوں نے تسلیم کیا تھا ۔ ان میں بی جے پی بھی شامل تھی ۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے آج کی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ بادی النظرمیں دیکھا جائے تو آسام جیسی حساس ریاست میں این آرسی کا عمل مکمل ہوجانے کے باوجودیہ معاملہ بہت اہم ہے، کیونکہ اگر خدانخواستہ 1951کے شہریت ایکٹ سے مذکورہ ترمیمی دفعہ نکال دی جاتی ہے، تو آسام میں ایک بارپھر انسانی بحران کے پیدا ہوجانے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔
    Published by:Imtiyaz Saqibe
    First published: