اسد کی تدفین میں شرکت کے لیے عتیق نے عدالت میں دی درخواست، سماعت آج

اسد کی تدفین میں شرکت کے لیے عتیق نے عدالت میں دی درخواست، سماعت آج

اسد کی تدفین میں شرکت کے لیے عتیق نے عدالت میں دی درخواست، سماعت آج

جب عتیق احمد کے والد فیروز احمد کا انتقال ہوا تھا۔ اس وقت بھی عتیق احمد جیل میں تھے اور انہیں اپنے والد کے جنازے میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Lucknow, India
  • Share this:
    اُمیش پال قتل معاملہ کے ملزم عتیق احمد نے اپنے بیٹے اسد کی تدفین میں بطور والد شرکت کرنے کے لیے عدالت میں عرضی داخل کی ہے۔ درخواست پر آج 15 اپریل کو سماعت ہوگی۔ اسد کی نعش کو لینے کے یے افراد خاندان اور وکیل جھانسی میڈیکل کالج گئے ہوئے ہیں، جن کے ہفتہ صبح تک آنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ وکلا کی ایک ٹیم نے بتایا کہ کل جمعہ کو چھٹی قرار دی گئی تھی۔

    ریمانڈ مجسٹریٹ کے روبرو درخواست دی گئی ہے، لیکن تعطیلاتی بنچ نے کہا کہ اس تعلق سے انہیں سماعت کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ اس لیے، اس سلسلے میں درخواست کی سماعت ہفتہ کو دائرہ اختیار عدالت کے پریذائیڈنگ افسر کے سامنے ہوگی۔ ان لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ جب عتیق احمد کے والد فیروز احمد کا انتقال ہوا تھا۔ اس وقت بھی عتیق احمد جیل میں تھے اور انہیں اپنے والد کے جنازے میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی اور اب انہوں نے عدالت سے اپنے ہی بیٹے کے جنازے میں شرکت کی اجازت مانگ لی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:

    زندہ رہا تو ضرور انتقام لوں گا، بیٹے اسد کے بارے میں یہ سوال پوچھنے پر بھڑک اٹھا عتیق احمد، بولا: مجھ پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا

    اس سے قبل،  مافیا ڈان عتیق احمد بیٹے کی موت کی خبر سن کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔ اس نے پولیس کے سامنے کہا تھا کہ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔ اس نے یہ بھی پوچھا تھا کہ بیٹے  کو کہاں دفن کیا جائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:

    Asad Encounter: اسد کے جنازے کی تیاریاں شروع، کھودی جا رہی ہے قبر، جانئے کہاں سے آیا تابوت؟




    ذرائع کے مطابق امیش پال قتل کیس میں اسد کے کردار کے بارے میں پوچھنے پر عتیق ایس ٹی ایف پر بھڑک گیا۔ اس نے کہا کہ مارنے کے بعد رول کیوں پوچھتے  ہو؟ اگر میں زندہ رہا تو انتقام ضرور لوں گا۔‘‘ عتیق نے ایس ٹی ایف ٹیم سے کہا، ’’آج مجھ پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ میرا گھر اجڑ گیا، سب ختم ہو گیا۔
    Published by:Shaik Khaleel Farhaad
    First published: