بابری مسجد انہدام کی برسی آج، کیسی تھی 30 سال پہلے کی وہ صبح،6دسمبر1992 کے دن کیا کیا ہوا تھا
بابری مسجد انہدام کی برسی آج، کیسی تھی 30 سال پہلے کی وہ صبح،6دسمبر1992 کے دن کیا کیا ہوا تھا
خبریں تو ایسی بھی آئی تھیں کہ بابری کے انہدام کیے جانے کے بعد لارڈ رام کے عارضی مندر میں رام کی مورتی کے درشن کے لیے سیکورٹی فورس کی طویل قطاریں بھی لگی ہوئی تھیں۔
آج بابری مسجد انہدام کی برسی ہے۔ 30 سال پہلے آج ہی کے دن یعنی 6 دسمبر 1992 کو کارسیوکوں کی بھیڑ نے بابری مسجد کے ڈھانچے کو منہدم کردیا تھا۔ چھ دسمبر ایودھیا کی تاریخ میں ایک ایسی تاریخ کے طور پر درج ہوگیا ہے، جس کا الگ الگ طبقے پر الگ الگ اثر پڑا ہے۔ اس کی وجہ سے طویل عرصے تک ایودھیا کو لے کر کشیدگی رہی، مگر نو نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے سے تاریخی تنازعہ کا تصفیہ کردیا۔ تو آئیے جانتے ہیں کہ آخر 6 دسمبر کو ایودھیا کی وہ صبح کیسی تھی اور اس دن کیا کیا ہوا۔
آخر 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں وہ سب ہوگیا، جس کا سب کو اندیشہ تھا۔ لیکن کوئی ایسا ہوتے دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ پھر ایسا ہو گیا۔ ایک ماضی، ایک تاریخ جسے اس دن کی موجودہ تاریخ ہوتے دیکھ رہی تھی۔ اس سانحہ کی تلخ یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ چاروں طرف دھول ہی دھول تھی۔ یہاں کوئی آندھی چل رہی تھی، بلکہ یہ منظر کسی آندھی سے کم نہیں تھا۔ بہت بڑی بھیڑ سے یہی اندازہ ہورہا تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کہ بھیڑ ہزاروں میں تھی یا لاکھوں میں، ہاں ایک بات جو اس پوری بھیڑ میں تھی، وہ تھی جنون۔ ایسا لگ رہا تھا، جیسے وہاں موجود ہر شخص اپنے آپ میں ایک لیڈر تھا۔ ’جے شری رام، مندر وہیں ب نائیں گے، ایک دھکہ اور دو۔۔ جیسے فلک شگاف نعروں کی فضا میں گونج تھی۔ یہ سارا منظر ایودھیا کا تھا۔ 2 گھنٹے میں ہی حال، ماضی بن گیا
یہاں بات ایودھیا اور لارڈ رام کی ہورہی ہے۔ نعرے لگ رہے تھے۔ تاریخ کو بدلنے والا یہ واقعہ ایودھیا میں 6 دسمبر، 1992 کو ہورہا تھا۔ اس کا اندیشہ بہت کو نہیں رہا ہوگا لیکن کچھ بڑا ہونے جارہا ہے، ایسا وہاں کے ماحول کو دیکھ کر سمجھا جاسکتا تھا۔ تبھی وہاں موجود کار سیوکوں کے ساتھ لوگوں کی بڑی تعداد بابری مسجد کے احاطے میں داخل ہوگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مسجد کے گنبدوں پر ان کا قبضہ ہوگیا۔ ہاتھوں میں پھاوڑے، کدال، چھینی ہتھوڑا لیے گنبدوں پر حملے کرنے لگے۔ جس کے ہاتھ میں جو تھا، وہی اس ڈھانچے کو منہدم کرنے کا اوزار بن گیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے حال، ماضی ہوگیا۔ یہ سب ہونے میں قریب دو گھنٹے لگے یا کچھ زیادہ۔ مرکز کی نرسمہا راو حکومت، ریاست کی کلیان سنگھ حکومت اور سپریم کورٹ دیکھتے رہ گئے۔ یہ سب تب ہوا، جب سپریم کورٹ نے متنازعہ مقام پر کسی بھی طرح کی تعمیری کاموں پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ ایک آبزرور بھی مقرر کیا ہوا تھا۔ حیران کن بات یہ بھی تھی کہ اترپردیش کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ کو بھروسہ دلایا تھا کہ اس کے احکامات پر پوری طرح سے عمل ہوگا، لیکن بھروسے کا وعدہ وفا نہ ہوسکا۔ اس سارے واقعہ کی جانچ کے لیے بعد میں ’لبراہن کمیشن‘ تشکیل دی گئی۔
صبح سے ہی تھی قائدین کی چہل پہل فی الحال 6 دسمبر پر آتے ہیں۔ اس دن صبح لال کرشن اڈوانی کچھ لوگوں کے ساتھ ونئے کٹیار کے گھر گئے تھے۔ اس کے بعد وہ متنازعہ مقام کی جانب روانہ ہوئے۔ اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور ونئے کٹیار کے ساتھ اس جگہ پہنچے، جہاں علامتی کار سیوا ہونی تھی۔ وہاں انہوں نے تیاریوں کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد اڈوانی اور جوشی ’رام کتھا کُنج‘ کی جانب چل دئیے۔ یہ اُس جگہ سے قریب دو سو میٹر دور تھی۔ یہاں سینئر قائدین کے لیے اسٹیج تیار کیا گیا تھا، یہ جگہ متنازعہ ڈھانچے کے سامنے تھی۔ قابل ذکر بات ہے کہ اس وقت تیزی سے ابھرتی بی جے پی کی نوجوان لیڈر اوما بھارتی بھی وہاں تھی۔ وہ سر کے بال کٹواکر آئی تھیںِ تا کہ سیکورٹی فورس کا چکمہ دے سکے۔
حالات کی سنجیدگی کو بھانپ نہیں پائے مجسٹریٹ صبح 11 بج کر 45 منٹ پر فیض آباد کے ضلع مجسٹریٹ اور پولیس کمشنر نے بابری مسجد رام جنم بھومی احاطے کا دورہ کیا۔ شائد وہ بھی حالات کی سنجیدگی کو بھانپ نہیں پائے۔ انہیں یہ پورا انعقاد ایک عام کار سیوا کا پروگرام ہی نظر آیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاں لوگوں کی بھیڑ لگاتار بڑھتی جارہی تھی۔ دوپہر کو اچانک ایک کار سیوک کسی طرح گنبد پر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے بعد وہاں ہونے والے واقعے پر بی جے پی کے بڑے قائدین کا بھی کنٹرول نہیں رہا۔ ان کی اپیلو کا لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔ بھیڑ بے قابو ہوچکی تھی۔ ایسی قیاس آرائیاں تھیں کہ اس ڈھانچے کو منہدم کرنے کی باقاعدہ ریہرسل بھی کی گئی تھی۔
ادھر ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ سینٹرل سیکورٹی فورس بھی کارسیوکوں کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آرہی تھی۔ خبریں تو ایسی بھی آئی تھیں کہ بابری کے انہدام کیے جانے کے بعد لارڈ رام کے عارضی مندر میں رام کی مورتی کے درشن کے لیے سیکورٹی فورس کی طویل قطاریں بھی لگی ہوئی تھیں۔ اپنے اعلیٰ عہدیداروں کی وارننگ کا بھی جوانوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔ یہی نہیں، اس عارضی مندر کے آس پاس تعینات جوانوں نے اپنے جوتے اتارے ہوئے تھے۔ جوانوں کی عقیدت سے بھری آنکھیں اور ننگے پاوں وہاں کے حالات بیان کررہے تھے۔ اس واقعے کے عبد مرکزی حکومت نے اترپردیش حکومت کو برخاست کردیا۔ خبریں تو ایسی بھی تھیں کہ کلیان سنگھ برخاستگی کی سفارش سے قریب تین گھنٹے پہلے ہی استعفیٰ دے چکے تھے۔ اور اس طرح 6 دسمبر کو اس ملک نے تاریخ بدلتے دیکھی۔
Published by:Shaik Khaleel Farhaad
First published:
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔