اپنا ضلع منتخب کریں۔

    فلیٹ میں بند کرکے رکھتا تھا شوہر ، اسقاط حمل کراکر گھر سے نکالا ، وجہ جان کر رہ جائیں گے حیران

    علامتی تصویر

    علامتی تصویر

    الزام ہے کہ جہیز میں کار نہ ملنے سے ناراض شوہر کے ذریعہ نکاح کے پانچ ماہ بعد ہی بیوی کو طلاق دے کر گھر سے باہر نکال دیا گیا ۔

    • Share this:
      اترپردیش کے فتح پور ضلع کے اندولی گاوں میں مبینہ طور پر تین طلاق دینے کا معاملہ سامنے آیا ہے ۔ الزام ہے کہ جہیز میں کار نہ ملنے سے ناراض شوہر کے ذریعہ نکاح کے پانچ ماہ بعد ہی بیوی کو طلاق دے کر گھر سے باہر نکال دیا گیا ۔ علاوہ ازیں بیوی نے شوہر پر کئی دیگر سنگین الزامات بھی عائد کئے ہیں ، جس میں دوسری شادی اور زبردستی اسقاط حمل بھی شامل ہیں ۔

      ایس پی رمیش نے بدھ کو بتایا کہ شہر کوتوالی حلقہ کے اندولی گاوں کی شبنم ان کے پاس پیر کو آئی تھی ۔ اس نے اپنے شوہر حیات عالم کے ذریعہ تین طلاق دے کر گھر سے باہر نکال دینے کی شکایت کی تھی ۔ اس معاملہ میں پولیس نے متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے اور ساتھ ہی جانچ کی جارہی ہے ۔

      شہر کوتوالی کے ایس ایچ او جتیندر سنگھ نے درج رپورٹ کے حوالہ سے بتایا کہ سراج نے اپنی بیٹی شبنم کا نکاح گاوں کے رہنے والے حیات عالم سے 23 اپریل 2019 کو کیا تھا ۔ نکاح کے دوران تقریبا 10 لاکھ روپے کا خرچ بتایا گیا ہے ۔ سنگھ نے بتایا کہ نکاح کے بعد سے ہی حیات ، اس کی پھوپھی اور بہن جہیز میں ہونڈا سٹی کار نہ ملنے پر شنبم کو اذیت پہنچا رہے تھے ۔

      انہوں نے بتایا کہ حیات ممبئی میں نوکری کرتا تھا ۔ اس نے مہارشٹر میں چار مئی کو نغمہ نام کی لڑکی سے دوسری شادی کرلی ۔ جب شبنم کے اہل خانہ کو دوسری شادی کی خبر ہوئی تو وہ اس کو لے کر ممبئی پہنچ گئے اور سمجھوتہ ہونے پر اس کو اس کے شوہرکے پاس چھوڑ دیا اور لوٹ آئے ۔ سنگھ نے بتایا کہ اہل خانہ کا الزام ہے کہ ان کے واپس لوٹتے ہی نغمہ اور اس کے شوہر نے 9 جون سے لے کر 27 اگست تک شبنم کو ایک فلیٹ میں قید کرکے رکھا ۔ اس دوران نغمہ اور حیات نے اس کا زبردستی اسقاط حمل بھی کروایا ۔

      درج رپورٹ کی بنیاد پر انہوں نے بتایا کہ شبنم کسی طرح 29 اگست کو ان کی قید سے آزاد ہوکر اپنے مائیکہ آگئی ۔ جب 17 ستمبر کو اس کا شوہر گاوں لوٹا تو ایک مرتبہ پھر پنچایت ہوئی اور متاثرہ نے الزام لگایا کہ اس کے شوہر نے تین بار طلاق بول کر اور مار پیٹ کر کے اس کو باہر نکال دیا۔
      First published: