مدھیہ پردیش : یوم آزادی پر آزادی کے گمنام مجاہدین کو کیاگیا یاد
یوم آزادی کے موقع پر بھوپال میں ایک ایسی ہی خاص نمائش کا اہتمام کر کے آزادی کے ان ہیرو کو یاد کرنے کی کوشش کی گئی ، جنہوں نے تحریک آزادی میں عظیم قربانیاں تو انجام دیں ، لیکن گردش وقت اور اپنوں کی عدم توجہی سے انہیں فراموش کردیا گیا۔
- News18 Urdu
- Last Updated: Aug 15, 2020 10:34 PM IST

مدھیہ پردیش : یوم آزادی پر آزادی کے گمنام مجاہدین کو کیاگیا یاد
ہندستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے سبھی قوموں کے لوگوں نے اپنے خون جگر کا عطیہ پیش کیا ہے ۔ سیکڑوں سال کی غلامی کے بعد ملک تو آزاد ہوا اور ہم نے آزادی کی فضا میں سات دہائی سے زیادہ عرصہ بھی گزار دیا ، لیکن ان مجاہدین آزادی کو بھول گئے ، جنہوں نے ملک کی آزادی کے لئے سب کچھ قربان کردیا ۔ نئی نسل گاندھی جی کے قاتل کا نام تو جانتی ہے لیکن اس ہیرو بطخ میاں انصاری کا نام نہیں جانتی ہے ، جس نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر بابائے قوم مہاتما گاندھی کی جان بچائی تھی ۔ یوم آزادی کے موقع پر بھوپال میں ایک ایسی ہی خاص نمائش کا اہتمام کر کے آزادی کے ان ہیرو کو یاد کرنے کی کوشش کی گئی ، جنہوں نے تحریک آزادی میں عظیم قربانیاں تو انجام دیں ، لیکن گردش وقت اور اپنوں کی عدم توجہی سے انہیں فراموش کردیا گیا۔
بھوپال کوہ فضا میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقدہ اس نمائش میں ممتاز مجاہدین آزادی کے ساتھ مسلم مجاہدین آزٓادی کو خصوصیت کے ساتھ پیش کیاگیا تھا۔ نمائش میں سترہ سو ستاون میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ شروع کرنے والے سراج الدولہ سے انیس سو سینتالیس تک آزادی کے ہیروکو دستاویز کے ساتھ پیش کیا گیا ۔
عام طور تحریک آزادی میں جب خواتین کی بات کی جاتی ہے تو لوگ کستوربا گاندھی ،سرونجی نائیڈو، لکشمی بائی ، بیگم حضرت محل اور چند نام لیکرآگے بڑھ جاتے ہیں ، لیکن اس نمائش میں دیڑھ سو سے زیادہ ایسی مسلم خواتین کو پیش کیا گیا ہے ، جنہوں نے تحریک آزادی میں نمایاں خدمات انجام دیں اور گاندھی جی کے ساتھ کام کیا ہے جس میں خصوصیت کے ساتھ احمد بانو، امجدی بیگم، بیگم ریحانہ عباس طیب جی ، بیگم سکینہ لقمانی ، بیگم خورشید خواجہ ، بیگم زہر انصاری کے نام قابل ذکر ہیں ۔

یوم آزادی کے موقع پر بھوپال میں ایک ایسی ہی خاص نمائش کا اہتمام کر کے آزادی کے ان ہیرو کو یاد کرنے کی کوشش کی گئی ۔
نمائش کے روح رواں اے ڈبلیو انصاری کہتے ہیں کہ جب میں لندن گیا تو وہاں پر یہ دیکھ کر حیرت میں پڑگیا کہ ان لوگوں کے پاس ہماری تحریک آزادی کی روشن تاریخ ہے ، لیکن ہم لوگوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔ وہیں سے میں نے یہ عہد کیا کہ تحریک آزادی کے گمنام مجاہدین آزادی کو منظر عام پر لانے کا کام کروں گا ۔ یوم آزادی پر اس نمائش کا اہتمام اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ آج کی نسل گاندھی جی کے قاتل کو تو جانتی ہے ، لیکن گاندھی جی کے محافظ بطخ میاں انصاری کو نہیں جانتی ہے ، جنہوں نے چمپارن ستیہ گرہ کے دوروان گاندھی جی کی حفاظت میں نہ صرف اپنی جان کی بازی لگائی بلکہ ان کے پورے خاندان کو انگریزوں نے مار دیا ۔ آزادی کے بعد پہلے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجیند پرساد نے اس خاندان کے لوگوں کو جو گاندھی جی کی حفاظت کے واقعہ کے چشم دید گواہ تھے ، کچھ ایکڑ زمین دی تھی ۔ لیکن وقت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ زمین ان کے خاندان کے لوگوں کو آج تک نہیں ملی ۔

بھوپال کوہ فضا میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقدہ اس نمائش میں ممتاز مجاہدین آزادی کے ساتھ مسلم مجاہدین آزٓادی کو خصوصیت کے ساتھ پیش کیاگیا تھا۔
اسی طرح سے انگریزوں کے خلاف کابل میں پہلی آزاد جلا وطن حکومت بنانے والے پروفسر برکت اللہ بھوپالی کو فراموش کردیا گیا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ برکت اللہ بھوپالی جو پہلی آزاد عبوری حکومت کے وزیر اعظم تھے ، جب انہیں یاد کیا جائے ، تو ان کے ساتھ اسی حکومت کے صدر راجہ مہیندر پرتاپ کو بھی یاد کیا جائے ۔ جب رام پرساد بسمل کویاد کیا جائے تو اس کے ساتھ اشفاق اللہ کو بھی یاد کیا جائے ۔ جب ہمارے بزرگوں کی مشترکہ کوششوں سے ملک آزاد ہوا تو ساجھی وراثت کا تحفظ بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے ۔ میری صوبائی اور مرکزی حکومت سے مانگ ہے کہ آزادی کے گمنام مجاہدین کو یاد کرنے کے لئے ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس میں کام ہوسکے اور ہم ان کی قربانیوں کو یاد کرسکیں ۔ نصاب میں بچوں کو صرف چند نام نہ پڑھا جائے ۔ بلکہ ان مجاہدین کو بھی پڑھایا جائے ، جنہوں نے سب کچھ ملک کی آزادی کے لئے قربان کردیا تھا ۔
ڈاکٹر تسنیم حبیب کہتے ہیں کہ ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ مادر وطن ، بھارت کی جے کا نعرہ کس نے دیا تھا، آج جب نمائش میں آئے تو معلوم ہوا کہ یہ نعرہ ہمارے بزرگوں نے دیا تھا ۔ اٹھارہ سوستاون میں یہ دونوں نعرہ عظیم اللہ خان نے دیا تھا ۔ اسی طرح سے بھارت چھوڑو کا نعرہ یوسف مہر علی نے دیا اور جے ہند کا نعرہ عابد حسن سفرانی دیا تھا ۔ یہ بھی ہمیں اسی نمائش سے معلوم ہوا ۔ میں تو چاہوں گا کہ اس نمائش کو بار بار لگایا جائے تاکہ غلط فہمیاں بھی دور ہوں اور لوگ آزادی کے اصل ہیرو کی خدمات سے بھی واقف ہو سکیں ۔

نمائش میں سترہ سو ستاون میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ شروع کرنے والے سراج الدولہ سے انیس سو سینتالیس تک آزادی کے ہیروکو دستاویز کے ساتھ پیش کیا گیا ۔
ڈاکٹر سراج احمد علی کہتے ہیں کہ اے ڈبلیو انصاری کے تحقیقی کام کو دیکھ کر رشک ہوتا ہے ۔ ہم نے بھی تعلیم حاصل کی اور ایک عمر گزاردی ، لیکن ہمیں آزادی کے اتنے ہیرو کے نام نہیں معلوم تھے ۔ کیا بہتر ہوتا کہ ان مجاہدین کو یاد کرنے کے لئے حکومت خود قدم اٹھاتی ہے ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسو سی ایشن نے آزادی کے گمنام مجاہدین آزادی کی خدمات کو منظر عام پر لانے کے لئے سریز شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تاکہ اردو، ہندی اور انگریزی کے ساتھ ملک کی دوسری زبانوں میں وہ سریز شائع ہوسکیں اور نئی نسل آزادی کے گمنام مجاہدین کے کارناموں سے واقف ہو سکیں ۔