مدھیہ پردیش: اردو زبان کی بقا ترویج و اشاعت کیلئے چودہ نکات پر مشتمل تجویز کی گئی پاس

مدھیہ پردیش: اردو زبان کی بقا ترویج و اشاعت کیلئے چودہ نکات پر مشتمل تجویز کی گئی پاس

مدھیہ پردیش: اردو زبان کی بقا ترویج و اشاعت کیلئے چودہ نکات پر مشتمل تجویز کی گئی پاس

Madhya Pradesh News: دو روزہ قومی سمینار میں علوم اسلامیہ کے ماہرین کے ساتھ اردو کے ممتاز دانشوروں نے شرکت کی اور علامہ سید سلیمان ندوی کی ادبی، سماجی خدمات کے ساتھ تحریک آزادی میں ان کے بے مثل کارنامے پر تحقیقی مقالہ پیش کیا۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Bhopal | Madhya Pradesh
  • Share this:
بھوپال : دارالعلوم تاج المساجد کے زیر اہتمام علامہ سید سلیمان ندوی حیات و خدمات کے عنوان سے بھوپال میں منعقدہ دو روزہ قومی سمینار اختتام پذیر ہوگیا۔ دو روزہ قومی سمینار میں علوم اسلامیہ کے ماہرین کے ساتھ اردو کے ممتاز دانشوروں نے شرکت کی اور علامہ سید سلیمان ندوی کی ادبی، سماجی خدمات کے ساتھ تحریک آزادی میں ان کے بے مثل کارنامے پر تحقیقی مقالہ پیش کیا۔ دو روزہ قومی سمینار میں مختلف موضوعات پر چھبیس مقالے پیش کئے گئے۔ سمینار کی اختتامی تقریب میں اردو کی بقا ترویج و اشاعت کو لے کر دانشوروں نے اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے چودہ نکات پر مشتمل تجویز پاس کی اور اسے سمینار میں پیش کرکے اس پر عمل کرنے کی تلقین کی گئی۔

ممتاز صحافی عارف عزیز نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جس نے علامہ سید سلیمان ندوی کے قدموں میں بیٹھ کر زبان و ادب کو سیکھا ہے۔ جب وہ بھوپال میں آئے تھے اور بھوپال کے قاضی کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ بھوپال میں ہر سو جشن کا ماحول تھا اور جب وہ یہاں سے گئے تھے تب بھوپال میں ہرکوئی سوگوار تھا۔ انیس سو تیراسی میں جب بھوپال میں علامہ سید سلیمان ندوی کی ادبی خدمات پر سمینار کا انعقاد کیا گیا تھا، اس وقت میں نے علامہ سید سلیمان ندوی اور ادب اسلامی پر مقالہ پیش کیا تھا اور آج میں نے اپنا موضوع اس بات پر لکھا کہ سید صاحب نے کتنے مضمون لکھے، ان کے عنوان کیا تھے اور وہ کتنے صفحات پر مشتمل تھے۔

ان کے لکھے ہوئے مضامین کہاں کہاں شائع ہوئے اور انہوں نے اپنے تحقیقی مقالے کو لکھنے کے لئے جن کتابوں کا حوالہ پیش کیا ہے وہ کتنی اہمیت کی حامل ہے۔ سید سلیمان ندوی نے سیرت النبی لکھ کر جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے اور اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کےاردو زبان و  ادب پر بھی بہت احسانات ہیں۔ وہ بہترین اردو کے شاعر تھے اور انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ جن نکات کو پیش کیا ہے، اس پر از سر نو کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ممتاز ادیب مولانا عمیر الصدیق نے نیوز18 اردو سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سمینار میں شرکت کرنے اور تحقیقی مقالوں کو سننے سے معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد عزیز علامہ سید سلیمان ندوی نے ادب کا تاج محل تھے۔ ان کی تحریروں میں ایسی مقناطیسی ہے کہ جو بھی ادب کا شیدائی ایک بار اٹھاتا ہے ، بغیر پڑھے ہوئے اس کو نہیں چھوڑتا ہے۔ انہوں نے جتنے بھی مضامین اور کتابیں لکھی ہیں وہ اپنے قاری کو دعوت فکر دیتی ہیں۔ ہمیں اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھئے: منی پور کی راجدھانی امپھال میں پھر تشدد، کئی مقامات پر آگ زنی، کرفیو نافذ، فوج طلب


یہ بھی پڑھئے: شاہ رخ خان کے ساتھ ہوئی چیٹ کیوں لیک کی؟ بامبے ہائی کورٹ نے سمیر وانکھیڑے کو لگائی پھٹکار




ڈاکٹر اطہر حبیب ندوی نے نیوز18 اردو سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دو روزہ قومی سمینار جس مقصد کے لئے منعقد کیا گیا تھا ، ہمیں خْوشی ہے کہ سمینار اس مقصد میں کامیاب رہا۔ سمینار میں چھبیس مقالے پیش کئے گئے ۔ بعض لوگ جو سمینار میں کسی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے ۔ انہوں نے اپنے مقالے ہمیں بھیجے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ سمینار کی اختتامی تقریب میں دانشوروں نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے اردو کے فروغ و بقا کو لے کر چودہ نکاتی تجویز پیش کی، جو اہمیت کی حامل ہے ۔
Published by:Imtiyaz Saqibe
First published: