بیگمات بھوپال نے ویمنس امپاورمنٹ کے لئے ادا کیا ہے بنیاد کا کردار

ریاست بھوپال پر چار بیگمات نے تسلسل کے ساتھ ایک سو سات سال تک حکومت کی ہے۔ یوں تو دنیا کے بہت سے ممالک میں خواتین کی حکومت رہی ہے لیکن کسی بھی ملک میں تسلسل کے ساتھ ایک صدی سے تک بیگمات کی حکومت نہیں رہی ہے۔

ریاست بھوپال پر چار بیگمات نے تسلسل کے ساتھ ایک سو سات سال تک حکومت کی ہے۔ یوں تو دنیا کے بہت سے ممالک میں خواتین کی حکومت رہی ہے لیکن کسی بھی ملک میں تسلسل کے ساتھ ایک صدی سے تک بیگمات کی حکومت نہیں رہی ہے۔

ریاست بھوپال پر چار بیگمات نے تسلسل کے ساتھ ایک سو سات سال تک حکومت کی ہے۔ یوں تو دنیا کے بہت سے ممالک میں خواتین کی حکومت رہی ہے لیکن کسی بھی ملک میں تسلسل کے ساتھ ایک صدی سے تک بیگمات کی حکومت نہیں رہی ہے۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Bhopal, India
  • Share this:
بھوپال کو نوابوں کی نگری اور جھیئوں اور تالابوں کے شہر کے نام سے تو سبھی جانتے ہیں۔  بھوپال کے امتیازات میں جہاں قدرت کا حسن شامل ہے وہیں بھوپال کو بیگمات کا بھی شہر کہا جاتا ہے۔بھوپال پر نو مرد اور چار بیگمات کی حکومت رہی ہے۔ ریاست بھوپال پر چار بیگمات نے تسلسل کے ساتھ ایک سو سات سال تک حکومت کی ہے۔ یوں تو دنیا کے بہت سے ممالک میں خواتین کی حکومت رہی ہے لیکن کسی بھی ملک میں تسلسل کے ساتھ ایک صدی سے تک بیگمات کی حکومت نہیں رہی ہے۔ بھوپال کا سنہری دور بھی بیگمات بھوپال  کے نام سے وابستہ ہے ۔بیگمات بھوپال نے ریاست بھوپال پر حکومت کرنے کے ساتھ بھوپال میں ویمنس امپاؤرمنٹ ،خواتین کی تعلیم،لیڈیز کلب کا قیام،نرسنگ ہوم کی داغ بیل اور خواتین کے لئے پری بازار جہاں مردوں کا داخلہ ممنوع تھا ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یوم خواتین کے حوالے سے برکت اللہ یوتھ فورم کے زیر اہتمام بھوپال مسلم ایجوکیشن سو سائٹی کانفرنس ہال میں مذاکرہ کا انعقاد کیاگیا۔ مذاکرہ میں دانشوروں کے ساتھ ممتاز مورخین نے شرکت کی اور بیگمات بھوپال کے عہد زریں اور ان کی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
برکت یوتھ فورم کے اہم رکن اور پروگرام کے کنوینر سید انس نے نیوز ایٹین اردو سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں خواتین کے معمولی سے کام کو بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن بھوپال جہاں پر ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک بیگمات نے تسلسل کے ساتھ حکومت کی ہے ان کے نام سے کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان بیگمات نے صرف حکومت کی ہے بلکہ انہوں نے مشترکہ تہذیب کے فروغ کے ساتھ،فن تعمیر ،تعلیم ،ادب ،زبان ،اسپورٹس کے میدان میں بھی نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے۔ دنیا آج لیڈیز کلب کی بات کر رہی ہے لیکن بھوپال میں صدی قبل لیڈیز کلب قائم ہوچکا تھا ۔لیڈیز کلب کی سکریٹری مولانا آزاد کی بہن تھیں۔ہم چاہتے ہیں کہ نئی نسل بیگمات بھوپال کے روشن کارناموں کو یاد کرے اور حکومت ان کی یاد گار کو قائم کرے۔

منیش سسودیا 20 مار چ تک عدالتی حراست میں، اب تہاڑ میں منے گی ہولی

شوہر نے بے وفائی کے شک میں بیوی کا کیا قتل، لاش کے کئے ٹکڑے، پھر پانی کے ٹینک میں پھینکا
وہیں ممتاز ادیبہ و مورخ ڈاکٹر وبھا پرمار نے نیوز ایٹین اردو سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بیگمات بھوپال کی روشن تاریخ پر فخر ہے۔اور یہ ایسی لیگیسی ہے جس پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نواب شاہجہاں بیگم کو تعمیرات میں وہی مقام حاصل ہے جو مغل شہنشاہ شاہجہاں کو حاصل ہے۔ شاہجہاں بیگم نے نہ صرف تاج المساجد،بینظیر پیلس،تاج محل،گول گھر(گلشن عالم) اور دوسری اہم عمارتوں کو تعمیر کیا بلکہ میں یہاں پر تو یہ بھی بتانا چاہوں گی کہ سانچی کے استوپ کو بچانے اور اس کی تزین کاری کرنے میں انہوں نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
ممتاز تاریخ دان رضوان انصاری نے نیوز ایٹین اردو سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیگمات بھوپال کا اردو زبان و ادب کے فروغ میں نمایاں کردار رہا ہے۔ کسی ایک مقام پر ایک سو سات تک بیگمات کی حکومت رہنا آسان بات نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان بیگمات نے نام کے لئے حکومت کی ہو بلکہ حکومت کے سبھی امور پر ان کی گہری نظر تھی۔ سکندر جہاں قابل حکمراں کے ساتھ تیز اندازی ،گھوڑ سواری اور اور شمشیر زنی میں ماہر تھیں۔انکی بیٹی شاہجہاں بیگم صاحب دیوان شاعرہ تھیں اور انہوں نے چھ زبانوں میں خزینۃ اللغات کے ساتھ جو لغت لکھی ہے وہ کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

یہی نہیں بھوپال کی آخری خاتون فرمانروا نواب سلطان جہاں بیگم جن کی تصنیف اور تالیف کردہ کتابوں کی تعداد ساٹھ سے زیادہ ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی خاتون چانسلر تھیں اور تاحیات چانسلر رہی ہیں۔ آج تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں یہ اعزاز کسی دوسری خاتون کو حاصل نہیں ہوسکا۔یہی نہیں سلطان جہاں نے بھوپال میں لیڈیز کلب بھی قائم کیاتھا جس میں خواتین سبھی امور پر مشورہ کرتی تھیں۔میں برکت اللہ یوتھ فورم کو مبارکباد پیش کرونگا کہ انہوں نے اس سمت قدم اٹھایا۔اس کی بہت ضرورت ہے لیکن ایسے پروگرام سال میں ایک بار نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ انعقاد کرنے کی ضرورت ہے۔ پروگرام میں ایس ایم حسین،ڈاکٹر اشہر قدوائی اور دوسرے اسکالرس نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض شاہ ویز سکندر نے بحسن و خوبی انجام دئے۔
Published by:Sana Naeem
First published: