اپنا ضلع منتخب کریں۔

    کورونا مریض کی ڈائری : مفادِعامہ کے باب میں ایک ادبی تخلیق

    کورونا مریض کی ڈائری : مفادِعامہ کے باب میں ایک ادبی تخلیق

    کورونا مریض کی ڈائری : مفادِعامہ کے باب میں ایک ادبی تخلیق

    Corona mariz ki Diary : کورونا مریض کی ڈائری میں محمد شاہد خان ندوی نے جس انداز سے اپنے قلم کو جنبش دی ہے اس سے ایک نئے شاہد کی دریافت ہوئی ہے ۔

    • Share this:
    کورونا مریض کی ڈائری۔ محمد شاہد خاں ندوی کے ذریعہ کوارنٹائن یعنی طبی حراست کے دوران لکھی گئی ایک ایسی تحریر ہے ، جو کئی حوالوں سے اہمیت کی حامل ہے۔ اس ڈائری میں محمد شاہد خان نے کورونا کے شکار مریض کی حیثیت سے جس انداز سے اپنے تجربے تحریر کئے ہیں وہ ان کی ذہنی بیداری اور حوصلہ مندی کی مثال تو ہیں ہی ، ساتھ ہی یہ بھی بتاتے ہیں کہ کسی بھی خطرناک بیماری کی زد میں آنے کے بعد طبی احتیاط و ادویات کے علاوہ ایسی کونسی تدابیر اور عوامل ہیں ، جو مریض کو بیماری سے لڑنے کا نہ صرف حوصلہ دیتے ہیں ، بلکہ دوسروں کے لئے بھی باعث تقلید بن جاتے ہیں ۔

    محمد شاہد بھی دیگر لاکھوں مریضوں کی طرح ہی کورونا کی زد میں آگئے تھے ، لیکن انہوں نے نہ صرف اپنے حواس ہر قابو رکھا بلکہ ان تمام ذہنی قلبی اور جسمانی کیفیات کو قلم بند کردیا ، جن سے وہ اس بیماری کے دوران  دوچار رہے ۔ محمد شاہد کے مطابق ڈائری کی شکل میں یہ روزنامچہ تحریر کرنے کا بنیادی مقصد لوگوں کو بیدار کرنا اور بالخصوص انہیں یہ پیغام دینا ہے کہ کسی بھی بڑی مصیبت ، وبا یا بیماری کی گرفت میں آنے کے بعد دواؤں اور دیگر طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ انسان کی مثبت سوچ ، خدا کی ذات پر یقین اور حوصلہ مندی جیسے عناصر غیر معمولی کام کرتے ہیں ۔

    کورونا مریض کی ڈائری کا مقدمہ معروف ناول نگار ، ناقد ادیب و دانشور مشرف عالم ذوقی نے تحریر کیا ہے ۔ مشرف عالم ذوقی نے اس ڈائری کا سنجیدہ تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ " یہ ڈائری کسی ناول سے کم نہیں جس میں زبان کا لطف بھی ہے اور کورونا کے تعلق سے ہر طرح کی تفصیلات و معلومات  کا ذکر بھی، اسے آپ کوارنٹائن کے دنوں کی ڈائری بھی کہہ سکتے ہیں ، ایک خوبصورت سفر نامہ بھی اور ایک ایسا ناول جس کو آپ آخری سطر تک پڑھنے کے لئے بے قرار ہوجائیں ۔ اس فن پارے میں آشوبِ دنیا کا عکس بھی ہے ، رشتوں کی گرمی بھی، خوف کا احساس بھی، جینے کی تمنا بھی، مذہب بھی ، ایمان کی پختگی بھی اور موت کو شکست دینے کا عزم بھی" ۔

    محمد شاہد بھی دیگر لاکھوں مریضوں کی طرح ہی کورونا کی زد میں آگئے تھے ۔
    محمد شاہد بھی دیگر لاکھوں مریضوں کی طرح ہی کورونا کی زد میں آگئے تھے ۔


    محمد شاہد خان ندوی کے ذریعہ تخلیق کی گئی کورونا مریض کی ڈائری کی پذیرائی پوری دنیا میں ہورہی ہے اور اہم پہلو یہ ہے کہ لسان و زبان سے منسلک اہل علم و دانش اس کے طرزِ بیان اور زبان کی ستائش کر رہے ہیں ۔ ساتھ ہی دانشوروں کا وہ طبقہ جو انسانی نفسیات و سماجیات کے حوالے سے کام کرتا رہا ہے، وہ بھی محمد شاہد ندوی کی اس تخلیق کو اہم قرار دے رہاہے ۔

    شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا

    ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

    اس شعر کے پس منظر اور تاریخی شواہد کی روشنی میں شاہد لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے تنہائی کو انکشافِ ذات اور علم و معرفت کے حصول کے ایک موقع کے طور پر استعمال کیا اور وہ زندہ جاوید ہوگئے ۔ مولانا آزاد نے قیدِ تنہائی میں غبار خاطر جیسا ادب کا شاہکار تحریر کیا ، جواہر لال نہرو نے گلمپس آف ورلڈ ہسٹری لکھی ۔ نیلسن منڈیلا نے کنورسیشن وِد مائی سیلف تصنیف کی اور ان کے علاوہ  کئی دیگر اور اہم لوگوں نے بھی اپنی تنہائی اور بالخصوص مشکل وقت کی تنہائی میں مختلف موضوعات پر مبنی غیر معمولی ادب تخلیق کیا ۔

    محمد شاہد یہ بھی کہتے ہیں کہ کورونا اپنی نوعیت کا ایک الگ تجربہ تھا ، جس میں مختلف اوقات میں الگ الگ قسم کی کیفیات طاری رہیں ۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوارنٹائن ہو یا جیل کی آہنی سلاخیں ، زندگی کا یہ وہ پڑاؤ ہے ، جسے صبر و شکر اور عزم و حوصلے کے بغیر پار نہیں کیا جا سکتا ۔
    Published by:Imtiyaz Saqibe
    First published: