اپنا ضلع منتخب کریں۔

     درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء میں گائے گئے بسنت پنچمی کے گیت، جانئے کب سے چلی آرہی ہے یہ روایت

     درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء میں گائے گئے بسنت پنچمی کے گیت، جانئے کب سے چلی آرہی ہے یہ روایت

     درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء میں گائے گئے بسنت پنچمی کے گیت، جانئے کب سے چلی آرہی ہے یہ روایت

    Delhi News: بسنت پنچمی منانے کی روایت 750 سال پرانی ہے ۔ یہ روایت حضرت نظام الدین اولیاء کے خاص اور پسندیدہ شاگرد حضرت امیر خسرو نے اس وقت شروع کی جب انہوں نے نظام الدین اولیاء کو خوش کرنے کے لیے بسنت کا چولا استعمال کیا۔ سرسوں کے پھول لائے، آج بھی بسنت پنچمی منائی جاتی ہے۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Delhi | New Delhi
    • Share this:
    نئی دہلی : آپسی بھائی چارے کی مثال دہلی کے حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر ہمیشہ دیکھنے کو ملتی ہے۔  دیوالی پر یہاں دئے بھی روشن کئے جاتے ہیں، اسی سلسلے میں یہاں صوفی روایت کے تحت بسنت پنچمی کے موقع پر ایک پروگرام کا بھی اہتمام کیا گیا ۔  یہاں بہار یعنی بسنت کے گیت گائے جاتے ہیں اور اشعار پڑھے جاتے ہیں اور اسی مقبرے پر ہزاروں کی تعداد میں زائرین کا ہجوم ہوتا ہے۔  نظام الدین درگاہ پر منعقد ہونے والے اس پروگرام میں شرکت کے لیے دور دراز سے لوگ آئے ہوئے تھے ۔ آج کافی ہجوم دیکھنے کو ملا۔

    درگاہ کمیٹی کے جنرل سکریٹری سید کاشف نظامی نے بتایا کہ بسنت پنچمی منانے کی روایت 750 سال پرانی ہے ۔ یہ روایت حضرت نظام الدین اولیاء کے خاص اور پسندیدہ شاگرد حضرت امیر خسرو نے اس وقت شروع کی، جب انہوں نے نظام الدین اولیاء کو خوش کرنے کے لیے بسنت کا چولا استعمال کیا۔ سرسوں کے پھول لائے، آج بھی بسنت پنچمی منائی جاتی ہے۔ درگاہ پر بسنت منانے کیلئے آنے والے سبھی لوگ بسنت کا ایک نہ ایک کپڑا پہنتے ہیں، قوالی بھی ہوتی ہے اور بہار کی خوشیاں منائی جاتی ہیں ۔

    بسنت منانے کی صوفی روایت کی کہانی

    حضرت نظام الدین اولیاء کے بسنت سے متعلق ایک خاص واقعہ ہے!  کہانی اس طرح ہے۔  ہوا یوں کہ حضرت نظام الدین اولیاء کے چہیتے بھتیجے خواجہ شمس الدین تقی الدین نوح کا 18 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا ۔ اس کے بعد نظام الدین اولیاء بہت غمگین ہوئے اور اپنی خانقاہ میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگے ۔ کئی مہینے گزر گئے، لیکن غم کم نہیں ہوا، جس کی وجہ سے تمام مرید بھی پریشان ہونے لگے ۔ حضرت نظام الدین اولیاء اپنے خانقاہ کے قریب چبوترہ یاراں میں ٹہل رہے تھے۔

    جب حضرت کے عزیز ترین شاگرد حضرت امیر خسرو کو ان کی حالت کا علم ہوا تو انہیں خوش کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بسنت پنچمی کا دن تھا اور دہلی میں لوگ دیوی کو موسم کی پہلی گندم کی فصل چڑھانے کے لئے کالکاجی مندر جا رہے تھے۔  وجہ پوچھنے پر لوگوں نے حضرت امیر خسرو کو بتایا کہ اس سے دیوی خوش ہو گی اور وہ سب کو نوازے گی۔ حضرت امیر خسرو نے سرسوں کے تازہ پھول اٹھائے اور چبوترہ یاراں پہنچے۔  آپ نے سرسوں کے پودے حضرت نظام الدین اولیاء کے قدموں میں رکھے ۔

    یہ بھی پڑھئے: پٹھان فلم کے بائیکاٹ کی مہم پر انوراگ ٹھاکر سخت، کہا: ماحول خراب کرتے ہیں ایسے واقعات


    یہ بھی پڑھئے : حیدرآباد میں کیو فیور کی دہشت،کئی ذبح خانوں میں لوگ متاثر، سلاٹر ہاوس سے دور رہنے کا الرٹ



    حضرت نے متجسس ہو کر پوچھا: "ای چیست، یہ کیا ہے؟"  جس پر حضرت امیر خسروؒ نے جواب دیا کہ عرب یار توری بسنت منائی (اے عرب دوست! میں تیرے لئے بسنت منا رہا ہوں) حضرت نظام الدین اولیاءؒ  مسکرائے اس دن سے چشتی خانقاہ میں بسنت منائی جاتی ہے۔
    Published by:Imtiyaz Saqibe
    First published: