آبروریزی سے پیدا ہوا بچہ مانگنے سپریم کورٹ پہنچا مجرم کا باپ، چیف جسٹس نے لگادی پھٹکار، کہا: یہ تو حد ہے ۔۔۔۔!

آبروریزی سے پیدا ہوا بچہ مانگنے سپریم کورٹ پہنچا مجرم کا باپ، چیف جسٹس نے لگادی پھٹکار، کہا: یہ تو حد ہے ۔۔۔۔!

آبروریزی سے پیدا ہوا بچہ مانگنے سپریم کورٹ پہنچا مجرم کا باپ، چیف جسٹس نے لگادی پھٹکار، کہا: یہ تو حد ہے ۔۔۔۔!

Supreme Court: سپریم کورٹ میں لسٹ کئے گئے ایک عجیب و غریب کیس پر سی جے آئی نے گہری ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ یہاں عرضی داخل کی گئی تھی، جس میں آبروریزی کے مجرم شخص کے والدین نے مانگ کی تھی کہ ان کے بیٹے نے جس لڑکی کی آبروریزی کی تھی، اس سے پیدا ہوا بچہ انہیں سونپ دیا جائے۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Delhi | New Delhi
  • Share this:
    نئی دہلی : سپریم کورٹ میں لسٹ کئے گئے ایک عجیب و غریب کیس پر سی جے آئی نے گہری ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ یہاں عرضی داخل کی گئی تھی، جس میں آبروریزی کے مجرم شخص کے والدین نے مانگ کی تھی کہ ان کے بیٹے نے جس لڑکی کی آبروریزی کی تھی، اس سے پیدا ہوا بچہ انہیں سونپ دیا جائے۔ اس عرضی کو سن کر چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ ناراض ہوگئے ۔ انہوں نے عرضی خارج کردیا اور کہا کہ یہاں آنے والی عرضیوں کی کوئی حد ہے یا نہیں؟

    جانکاری کے مطابق آبروریزی کرنے والے مجرم کے والدین کی عرضی لے کر ان کا وکیل کورٹ روم میں پہنچا ۔ سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس نرسمہا کی بینچ یہاں سماعت کررہی تھی ۔ وکیل نے جیسے ہی عرضی پڑھی تو چیف جسٹس نے اس پر ناراضگی ظاہر کردی ۔

    انہوں نے پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ آپ کا بیٹا ریپ کے الزام میں جیل میں ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ بچہ ( آبروریزی کے بعد پیدا ہوا بچہ) آپ کو سونپا جائے؟ ۔ سی جے آئی کے تلخ لہجہ کے بعد وکیل کی جانب سے بھی عرضی گزار کی جانب سے دلیل دی گئی ۔ اس نے کہا کہ یہ مانگ بچے کی بھلائی کیلئے کی جارہی ہے ۔

    یہ بھی پڑھئے: ہندوستان نے سوڈان میں پھنسے شہریوں کو نکالنے کیلئے شروع کیا 'آپریشن کاویری'


    یہ بھی پڑھئے: کیا 15 ۔ 20 دنوں میں گرجائے گی شندے سرکار! سنجے راوت نے کہا: جاری ہوچکا 'ڈیتھ وارنٹ'



    اس پر چسٹس نرسمہا نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے ، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ۔ چیف جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آنے والی عرضیوں کی کوئی حد ہونی چاہئے، یہ عرضی خارج کی جاتی ہے۔
    Published by:Imtiyaz Saqibe
    First published: