Delhi News: ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے سپریم کورٹ کے غداری قانون کے خلاف فیصلے کا کیا خیر مقدم
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے سپریم کورٹ کے غداری قانون کے خلاف فیصلے کا کیا خیر مقدم
بغاوت کا یہ قانون162 سال پرانا قانون ہے، جسے انگریزوں نے 1870 میں تحریک آزادی کو کچلنے اور مجاہدین آزادی کی آواز کو دبانے کے لئے بنا یا تھا۔ آزادای کے بعد اس کو نوآبادیاتی قانون کو انڈین پینل کوڈ کی دفعہ124A میں جگہ دے دی گئی۔
نئی دہلی: ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے سپریم کورٹ کے ذریعہ بغاوت قانون پر روک کی ستائش کر تے ہو ئے اسے ایک جرات مندانہ قدم قرار دیا ہے۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے سپریم کورٹ کے ذریعہ بغاوت قانون(124A) کے تحت دائر مقدمات پر روک لگانے اور پویس انتظامیہ کو یہ ہدایت دینے پر کہ جب تک مرکزی حکومت اس قانون پر نظرثانی کر کے کو ئی فیصلہ نہیں کر تی وہ اس قانون کا استعمال نہ کر ے کا خیر مقدم کیا۔ ڈاکٹر الیاس نے اپنے بیان میں کہا کہ اس قانون کا جو کہ ایک غیر ضمانتی اور سخت قانون ہے، غلط اور متواتر استعمال ہو رہا ہے۔ ان دنوں بغاوت قانون کا اطلاق دانشوروں، حقوق انسانی کے کارکنوں، یونیورسٹی کے اساتذہ، طلبا، صحافیوں اور مسلم شہریوں کے خلاف جابجا ہو نے لگا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بغاوت کا یہ قانون 162 سال پرانا قانون ہے، جسے انگریزوں نے 1870 میں تحریک آزادی کو کچلنے اور مجاہدین آزادی کی آواز کو دبانے کے لئے بنا یا تھا۔ آزادای کے بعد اس کو نوآبادیاتی قانون کو انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124A میں جگہ دے دی گئی۔ تاہم حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس قانون کا استعمال ہر حکومت جمہوری آواز کو دبانے کے لئے کرتی ہے جس کا ان دنوں بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دیگر کالے قوانین جیسے UAPA ، AFSPA وغیرہ کو بھی فی الفور کا لعدم قرار دیا جائے جن کا بھی بے دریغ غلط استعمال ہو نے لگا ہے۔
ڈاکٹر الیاس نے وزیراعظم نریندر مودی کے اس بیان کی ستائش کی جس میں انہوں نے شہری آزادیوں اور حقوق انسانی کے تحفظ کی یقین دہائی کرائی اور کہا کہ بغاوت کا یہ قانون فرسودہ ہو چکا ہے جس کی ہندوستان میں اب کو ئی ضرورت نہیں ہے اور مرکز سے درخوست کی اس قانون پر نظرثانی نہیں بلکہ اس کو منسوخ کر نے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی تمام شہریوں کو قطع نظر مذہب، ذات پات،کلاس اور سیاسی وابستگی کے انصاف مل سکے۔
ویلفیئر پارٹی کے قومی صدر نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ایسی بہت سی دردناک مثالیں ہیں کہ کس طرح آمرانہ و متکبرانہ حکومتوں نے اختلاف رائے کو کچلنے کے لئے اس قانون کا استعمال کیا۔ انہوں نے آگے کہا اس وقت ملک میں 800 ایسے افراد ہیں جن پر اس قانون کا استعمال ہوا ہے ، اس کے علاوہ 1300 افراد اس قانون کے تحت جیلوں میں بند ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا اس فیصلہ کے بعد وہ اب تمام لوگ ضمانت پر بعجلت ممکنہ جیسا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت ہے جیل سے باہر آسکیں گے یا پھر ان پر کسی اور دفعہ کے تحت مقدمہ قائم کر دیا جائے گا۔
Published by:Imtiyaz Saqibe
First published:
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔