نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پراکٹر وسیم احمد خان کے ذریعہ سوشل سائنس ڈپارٹمنٹ اور نیچرل سائنس ڈپارٹمنٹ کے دو طلبہ سمیت تین طلباء کو سوشل میڈیا پر جامعہ کے طلباء کی گرفتاری کے معاملے میں وائس چانسلر نجمہ اختر پر تنقید کرنے کو لےکر وجہ بتاؤ نوٹس جاری کئے جانے کے معاملے میں اب تنازعہ بھی شروع ہوگیا ہے اور اس طرح کا نوٹس جاری کئے جانے کو لے کر وائس چانسلر نجمہ اختر اور انتظامیہ پر شدید تنقید کی جارہی ہے، جس میں طلباء سے ایک ہفتے کے اندر جواب طلب کیا گیا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے۔ حالانکہ ان کی وجہ سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بدنامی ہوئی ہے اور یونیورسٹی کے اصول وضوابط کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کے خلاف نوٹس جاری کی گئی ہے۔
نوٹس میں یہ بھی کہا گیا سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کے خلاف بیان بازی کی گئی۔ اس کے علاوہ انسٹا گرام فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جامعہ ملیہ اسلامیہ، اسلاموفوبیا، عید مبارک، پی ایم مودی جیسے متعدد طرح کے ہیش ٹیگز چلائے گئے، اسی کے ساتھ ساتھ وائس چانسلر کا میمو بنایا گیا یہ سب کچھ جامعہ ٹائمس نام کے پیج پر ہوا ہے، جو آپ لوگوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ وہیں اس معاملے میں جن طلباء کو نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک عام بات ہے اور اس کو طول دیا جا رہا ہے۔ جامعہ کے طلباء کی گرفتاری پر ہم نے آواز اٹھائی ہے، ہماری آواز کو دبایا جا رہا ہے۔

نوٹس جاری کئے جانے کو لے کر وائس چانسلر نجمہ اختر اور انتظامیہ پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔
وہیں ممبر پارلیمنٹ منوج جھا نے پورے معاملے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا جامعہ کی وائس چانسلر اور ان کی ٹیم کس شبیہ کی بات کر رہی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا وجود ہی عدم مفاہمت کے تحت ہوا تھا۔ جامعہ اس وقت کے نیریٹو کےخلاف نیشنل ازم اور قوم پرستی کی صورت میں آگے آیا تھا۔ کیا یہ لوگ میکھیرتنزم کو پروان چڑھا رہے ہیں، لوگوں کے پاس اپنی مخالفت درج کرانے کا دستوری آئینی حق موجود ہے اور اس بات سے سبق لینا چاہئے کہ امریکہ میں کیا ہو رہا ہے۔
اس طرح کے دباؤ میں لئے گئے فیصلے سے اس یونیورسٹی کی شبیہ زیادہ خراب ہوتی ہے جس میں میں نے کام کیا ہے اور جس کا ترانہ ہے ’دیار شوق میرا، شہر آرزو میرا’۔ تو طلباء تنظیموں کی طرف سے بھی اس پورے معاملے میں جامعہ انتظامیہ پر تنقید کی جا رہی ہے۔ جامعہ کے ایک طالب علم اور طلباء تنظیم سے وابستہ داود عارف نے اس پورے معاملے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دو ماہ سے جامعہ کے طلبہ کی گرفتاری ہورہی ہے، ہم لوگ ہیں بول بول کر تھک چکے ہیں کہ آپ کے طلبا کی گرفتاری ہو رہی ہے، اس پر آپ کو بولنا چاہئے، لیکن وائس چانسلر اور انتظامیہ خاموش رہی اور اب اس معاملے میں نوٹس جاری کیا جا رہا ہے، جس کا واضح پیغام یہ ہے کہ جو کوئی بھی انتظامیہ کے خلاف آواز اٹھائےگا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
جبکہ آل انڈیا اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی رکن گوہر عائشہ شاہ نے کہا ہے کہ وجہ بتاؤ نوٹس یہ کہتے ہوئے جاری کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر جو لکھا گیا وہ انتہا پسندانہ ہے جبکہ یہ غلط ہے۔ دستوری آئینی حق میں مخالفت اور عدم رضامندی درج کرانے کا حق دیا گیا ہے۔ وہیں ساتھ ساتھ دوسرا سوال یہ ہے جامعہ کے تین طلباء پر یو اے پی اے لگا دیا گیا، حکومت سے بغاوت کا کیس لگا دیا گیا، لیکن اس پر جامعہ انتظامیہ کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا نہ ہی کوئی وضاحت کی گئی اور اب نوٹس جاری کئے جا رہے ہیں جبکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے بند ہیں، یہ بڑا ہی شرمناک اور افسوسناک ہے۔
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔