اپنا ضلع منتخب کریں۔

    Diwali 2022: اودھ اور دیوالی کی روشن تاریخ کے آئینے میں جگمگاتا لکھنئو 

    Diwali 2022: اودھ اور دیوالی کی روشن تاریخ کے آئینے میں جگمگاتا لکھنئو 

    Diwali 2022: اودھ اور دیوالی کی روشن تاریخ کے آئینے میں جگمگاتا لکھنئو 

    آج پورا ملک دیوالی کی مقدس روشنیوں میں نہا رہا ہے ۔ بات اگر اودھ کے حوالے سے کی جائے تو ایودھیا سے لکھنئو تک اور دیگر منسلکہ قصبوں شہروں اور دیہاتوں میں رام کی واپسی کی خوشی کا احساس مختلف حوالوں سے کیا جاسکتا ہے ۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Uttar Pradesh | Lucknow
    • Share this:
    لکھنو: آج پورا ملک دیوالی کی خوشیاں منا رہا ہے، گھر گھر چراغاں ہے۔  کہیں اعلیٰ معیار کی لائٹیں جگمگارہی ہیں تو کہیں جدید طرز کے قمقمے روشن ہیں، جو  اونچی اور فلک بوس عمارتوں سے لے کر چھوٹے چھوٹے مکانوں اور کٹیاؤں تک روشنی کا احساس کرا رہے ہیں ۔ دیوالی اور اودھ کی تاریخ بھی ایک ایسی ہی روشنی کی طرح ہے، جس کا اجالا صدیوں سے کتابوں کے اوراق پر پھیلا ہوا ہے ۔ دیپ جلانے کی رسم کے پیچھے الگ الگ اسباب وجوہات اور کہانیاں ہیں۔

    سنا ہے رہتا تھا جنگل میں ایک شہزادہ

    تمام دولتِ دنیا پہ خاک ڈالے ہوئے

    نواب مسعود عبد اللہ کہتے ہیں کہ لکھنئو اور قرب و جوار کے علاقوں  میں دیوالی منانے کے طریقہ کو بام عروج پر پہنچانے اور گھر گھر روشنی پہنچانے میں نوابینِ اودھ اور شاہانِ اودھ نے اہم کردار ادا کیا ہے ، حالانکہ اس حوالے سے تاریخ بھی کروٹیں بدلتی محسوس ہوتی ہے، لیکن معروف مورخ روشن تقی کے مطابق یہ تہوار  اجتماعی و انفرادی دونوں طرح سے منایا جانے والا ایسا مخصوص تہوار ہے، جو مذہبی، ثقافتی و سماجی انفرادیت رکھتا ہے۔ ہر صوبے یا علاقے میں دیوالی منانے کی وجہ اور طریقے مختلف ہیں، مگر تمام جگہ کئی نسلوں سے یہ تہوار چلا آ رہا ہے ۔

    دیوالی والے دن ایودھیا کے راجہ رام، لنکا کے ظالم حکمراں راون کا قتل کرکے ایودھیا لوٹے تھے۔ ان کے لوٹنے کہ خوشی میں آج بھی لوگ یہ تہوار مناتے ہیں۔ کرشن بھکت دھارا کے لوگوں کا مت ہے کہ اس دن شری کرشن نے ظالم راکشس راجہ کو قتل کیا تھا، جس کے سبب عوام میں بے پناہ مسرت پھیل گئی اور خوشی سے بھرے لوگوں نے گھی کے دیئے جلائے۔ ایک عقیدہ یہ ہے کہ اسی دن سمدرمنتھن کے بعد لکشمی و دھنوتر ظاہر ہوئے۔ جین عقیدے کے مطابق مہاویر سوامی کے نروان کا دن بھی دیوالی کو ہی ہے۔ سکھوں کے لئے بھی دیوالی اہم ہے کیونکہ اسی دن امرتسر میں 1577 میں طلائی مندر (گولڈن ٹمپل) کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 1619 میں دیوالی کے دن سکھوں کے چھٹے گرو گوبند سنگھ جی کو جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ نیپال والوں کے لئے یہ تہوار اس لئے عظیم ہے کیونکہ اس دن سے نیپال میں نیا سال شروع ہوتا ہے۔

    ہندوستان میں دیوالی کے تہوار کی خاص سماجی اہمیت ہے۔ ظلمت پر روشنی کی فتح کا یہ تہوار معاشرے میں مسرت، بھائی چارے اور محبت کا پیغام پھیلاتا ہے۔ یہاں لوگوں میں دیوالی کی بہت امنگ ہوتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں کا کونا کونا صاف کرتے ہیں۔ نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ مٹھائیوں کے تحفے ایک دوسرے کو باٹتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ گھر گھر میں خوبصورت رنگولی بنائی جاتی ہے، دیے جلائے جاتے ہیں اور آتشبازی کی جاتی ہے۔ بڑے چھوٹے تمام اس تہوار میں حصہ لیتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھئے: پی ایم مودی نے کہا، کارگل میں فوج نے دہشت گردی کا فن کچلا تھا، وہ دیوالی آج بھی یاد ہے


     

    یہ بھی پڑھئے: نوراتری اور دیوالی کے درمیان 2 لاکھ کاریں کی فروخت کا منصوبہ، 8 لاکھ کاریں پہلے ہی فروخت


    دیوالی کے  موقع پر پورے ملک میں اور خاص طور سے اودھ کے علاقوں میں مختلف مقامات پر میلے لگتے ہیں۔ دیوالی ایک دن کا تہوار نہیں بلکہ تہواروں کا گروپ ہے۔ دیوالی میں لوگ نئے نئے کپڑے سلواتے ہیں۔ دیوالی سے دو دن قبل دھنتیرس کا تہوار آتا ہے۔ اس دن بازاروں میں چاروں طرف جم غفیر امنڈ پڑتا ہے۔ کچے برتنوں کی دکانوں پر خاص سازو سامان کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ ’’دھن تیرس‘‘ کے دن برتن خریدنا، مبارک سمجھا جاتا ہے۔ اس دن ہر خاندان اپنی اپنی ضرورت کے مطابق کچھ نہ کچھ خریداری کرتا ہے۔ اس دن گھر کے دروازے پر ایک چراغ جلایا جاتا ہے۔

    اس سے اگلے دن چھوٹی دیوالی ہوتی ہے۔ اس دن چراغ جلائے جاتے ہیں۔ اگلے دن دیوالی آتی ہے۔ اس دن گھروں میں صبح سے ہی طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں۔ بازاروں میں پھل، بتاشے، مٹھائیاں، کھلونے، لکشمی، گنیش وغیرہ کی مورتیاں فروخت ہونے لگتی ہیں۔ جگہ جگہ پر آتشبازی اور پٹاخوں کی دکانیں آراستہ ہوتی ہیں۔ صبح سے ہی لوگ رشتہ داروں، دوستوں، کے گھر مٹھائیاں و تحفے بانٹنے لگتے ہیں۔ دیوالی کی شام لکشمی اور گنیش جی کی پوجا کی جاتی ہے۔ پوجا کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کے باہر چراغ و موم بتیاں جلا کر رکھتے ہیں۔ چاروں طرف چمکتے چراغ انتہائی خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ رنگ برنگے برقی بلب سے بازار و گلیاں جگمگا اٹھتے ہیں۔ بچے طرح طرح کے پٹاخوں اور آتش بازیوں سے لطف لیتے ہیں۔ رنگ برنگی پھلجھڑیاں، آتشبازیاں ا و ر اناروں کے جلنے کا لطف ہر عمر کے لوگ لیتے ہیں۔ پورا ماحول قمقموں اور چراغوں سے منور ہوجاتا ہے۔

    دیوالی سے اگلے دن گووردھن ہوتا ہے جس میں لوگ اپنے گائے، بیلوں کو سجاتے ہیں اور گوبر کا پہاڑ بنا کر پوجا کرتے ہیں۔ اس سے اگلے دن بھائی دوج ہوتا ہے۔ دیوالی کے دوسرے دن تاجر اپنی دکانوں پر لکشمی پوجا کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے دولت کی دیوی لکشمی، ان پر خصوصی نگاہ ڈالتی رہے گی۔ کسان طبقے کیلئے اس تہوار کی خاص اہمیت ہے۔ نئی فصل پک کر تیار ہو جانے سے کسانوں کے کھلیان امیر ہو جاتے ہیں۔ کسان سماج اپنی خوشحالی کا یہ تہوار مسرت کے ساتھ مناتا ہے۔

    رام کے لوٹنے یا واپس آنے کا تصور ہی ہمارے دل و ذہن کو اجالوں سے بھر دیتا ہے، کہا جاتا ہے کہ شاہان  اودھ کی جانب سے دیوالی کے موقع پر باقاعدہ مٹی کے خوشبودار دیے بنواکر تیل کے ساتھ تقسیم کئے جاتے تھے ساتھ ہی مٹھائیاں کھلونے اور کھانے پینے کی اشیاء بھی تقسیم کی جاتی تھیں جس سے امیر غریب سب مل کر دیوالی منا سکیں اور اودھ کے علاقے میں یہ تیوہار صرف ہندو ہی نہیں مناتے تھے بلکہ سبھی مذاہب کے لوگ ایک ساتھ مل کر مناتے تھے حالانکہ وقت کے بدلتے تقاضوں کے پیش نظر یہ احساس ماند ضرور پڑا ہے لیکن آج بھی بیشتر اہل ثروت اور امیر گھرانوں کے لوگ دیوالی کے اجالے تقسیم کرکے اپنی قدیم روشن روایت کو زندہ اور اپنے معاشرے اور فضا جو تابندہ کررہے ہیں اور دیوالی کا یہی مقصد بھی ہے کہ خوشیوں اوع ترقیوں کے اجالے ہر دہلیز  ہر منڈیر اور ہر طاق میں روشن ہوں

    بڑی حویلی کے تقسیم جب اجالے ہوئے

    جو بے چراغ تھے وہ بھی چراغ والے ہوئے ہے
    Published by:Imtiyaz Saqibe
    First published: