اپنا ضلع منتخب کریں۔

    امارت شرعیہ کی دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس سوالات کی زد میں ، کنوینر کو ایم ایل سی کا ٹکٹ ، سیاست گرم

    امارت شرعیہ بہار کی دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس کے بہانے صوبہ میں سیاست گرم ہے۔ پٹنہ کے گاندھی میدان میں پہنچی مسلمانوں کی بھیڑ نے سیاسی پارٹیوں کو ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔

    امارت شرعیہ بہار کی دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس کے بہانے صوبہ میں سیاست گرم ہے۔ پٹنہ کے گاندھی میدان میں پہنچی مسلمانوں کی بھیڑ نے سیاسی پارٹیوں کو ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔

    امارت شرعیہ بہار کی دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس کے بہانے صوبہ میں سیاست گرم ہے۔ پٹنہ کے گاندھی میدان میں پہنچی مسلمانوں کی بھیڑ نے سیاسی پارٹیوں کو ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔

    • Share this:
      پٹنہ :  امارت شرعیہ بہار کی دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس کے بہانے صوبہ میں سیاست گرم ہے۔ پٹنہ کے گاندھی میدان میں پہنچی مسلمانوں کی بھیڑ نے سیاسی پارٹیوں کو ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ سبھی سیاسی پارٹیوں کے لیڈر دن بھر گاندھی میدان کا چکر لگاتے رہے۔ مسلمانوں کی تعداد سیاسی گلیاروں میں بحث کا موضوع بنا۔ ادھر امارت شرعیہ کے کانفرنس کے بعد جے ڈی یو نے کانفرنس کے کنوینر خالد انور کو اپنا ایم ایل سی کا امیدوار بنادیا۔ خالد انور کے نام کے اعلان کے بعد سے ہی خالد انور اور امارت کے امیر شریعت مولانا ولی رحمانی پر کئی طرح کے الزامات لگ رہے ہیں۔
      شاندار کانفرنس منعقد کرنے پر سب نے اپنی اپنی کارکردگی شمار کر اکر کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی۔ مسلم مسائل کے حل کا دعویٰ کیا اور اپنی اپنی پارٹی کو مسلمانوں کا مسیحا قرار دیا۔ شام ہوتے ہی جے ڈی یو نے کانفرنس کے کنوینر خالد انور کو اپنا ایم ایل سی کا امیدوار بنا دیا۔ مسلم اور دلتوں کی سیاست کرنے والی تنظیموں نے امارت کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔
      سیاسی لیڈروں کے مطابق علماء متحد نہیں ہوئے لیکن امارت نے سیاسی سودہ بازی کر کے اپنا الو سیدھا کیا۔ مولانا ولی رحمانی پر بھی خوب الزامات کی بوچھار کی جارہی ہے ۔امارت نے اعلان کیا تھا کہ کانفرنس پوری طرح سے دین شریعت سے جڑا رہےگا لیکن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقرروں نے سیاسی باتیں کی اور شام ہوتے ہی سیاسی گلیاروں نے کانفرنس کو اپنے نام کرانے کی حکمت عملی پر کام کرنا شروع کیا۔

      پٹنہ سے محفوظ عالم کی رپورٹ
      First published: