اپنا ضلع منتخب کریں۔

    کم عمری میں شادی کے خلاف بھوک ہڑتال کرکے مرشدآباد کی شمیمہ سلطان نے رقم کی تاریخ

    مرشدآباد ضلع میں دسویں جماعت کی طالبہ شمیمہ سلطان نے اپنی شادی کی خلاف اور تعلیم جاری رکھنے کیلئے بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر نہ صرف ضلع میں بلکہ ملک بھر میں کم عمری میں شادی کے خلاف جدو جہد کی ایک بڑی مثال قائم کردی ہے۔

    مرشدآباد ضلع میں دسویں جماعت کی طالبہ شمیمہ سلطان نے اپنی شادی کی خلاف اور تعلیم جاری رکھنے کیلئے بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر نہ صرف ضلع میں بلکہ ملک بھر میں کم عمری میں شادی کے خلاف جدو جہد کی ایک بڑی مثال قائم کردی ہے۔

    مرشدآباد ضلع میں دسویں جماعت کی طالبہ شمیمہ سلطان نے اپنی شادی کی خلاف اور تعلیم جاری رکھنے کیلئے بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر نہ صرف ضلع میں بلکہ ملک بھر میں کم عمری میں شادی کے خلاف جدو جہد کی ایک بڑی مثال قائم کردی ہے۔

    • UNI
    • Last Updated :
    • Share this:

      کلکتہ۔  مغربی بنگال کا مسلم اکثریتی مرشدآباد ضلع ریاست کے پسماندہ ترین ضلع میں سے ایک ہے ۔ یہاں کم عمری میں ہی لڑکیوں کی شادیوں کا رواج عام ہے ۔تعلیم کی شرح ریاست کے دیگر اضلاع کے مقابلے کافی کم ہے اور بنیادی سہولیات سے محرومی ، روزگار کے فقدان کی وجہ سے والدین بچیوں کی شادی کیلئے تعلیم کو درمیان میں چھوڑوادیتے ہیں ۔مگر دسویں جماعت کی طالبہ شمیمہ سلطان نے اپنی شادی کی خلاف اور تعلیم جاری رکھنے کیلئے بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر نہ صرف ضلع میں بلکہ ملک بھر میں کم عمری میں شادی کے خلاف جدو جہد کی ایک بڑی مثال قائم کردی ہے۔ مرشدآباد ضلع کے مالو پارہ گاؤں کی رہنے والی17سالہ طالبہ شمیمہ سلطان کے والدین تعلیم کو چھوڑ واکر اس کی شادی کا فیصلہ کیا تو اس نے غیر معمولی عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے شادی سے انکار کردیا اور والدین کے دباؤ میں جب اضافہ ہوا تو شمیمہ نے بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے بھوک ہڑتال کے تیسرے دن آخر کار اسکول کے اساتذہ اور مقامی انتظامیہ نے اس معاملہ پر نوٹس لیا ۔بھوک ہڑتال کی وجہ سے اس کی طبیعت بہت ہی زیادہ خراب ہوگئی تھی ۔ مقامی انتظامیہ نے ہریہا پاڑہ بلاک پرائمری اسپتال میں داخل کرادیا۔


      لڑکی کیلئے اپنے والدین کے فیصلے کے خلاف جانا کوئی آسان نہیں تھا۔ جب پولیس نے گرفتار کرنے کی دھمکی دی تو ان کے ماں باپ شادی کے فیصلہ سے پیچھے ہٹے۔ مالا پورا ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر پراہاس چندر بسواس نے کہا کہ ’’شمیمہ نے مجھے بتایا تھا کہ اس کے والدین اس کی مرضی کے بغیر شادی کرانا چاہتے ہیں ۔والدین اس کی بات کو نہیں مان رہے ہیں ۔اسی درمیان ہمیں شمیمہ کے بھوک ہڑتال پر بیٹھ جانے کی کی خبر ملی تو ہم نے مقامی پولس اور انتظامیہ کو خبر دے کر اس کی مدد کی۔  مرشدآباد، مالدہ اورندیا جیسے پسماندہ ضلع میں ہر سال ہزاروں لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کردی جاتی ہے۔بلکہ سیکڑوں لڑکیوں کی شادیاں دوسری ریاستوں راجستھان، ہریانہ ، بہار، اتر پردیش اور جھارکھنڈ میں کردی جاتی ہیں جہاں سے وہ دوبارہ اپنے گھر کبھی بھی نہیں آپاتی ہیں۔ کبھی یہ لڑکیاں غلط افراد کے ہاتھ بھی لگ جاتی ہیں ۔ مرشدآباد صلع کوآرڈی نیٹر آف چائلڈر انن نیڈ انسی ٹیوٹ کے جیانتا چودھری نے بتایا کہ ضلع میں سیکڑوں اس طرح کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں ۔ شادی کے بعد بیشتر والدین کا اپنے بچیوں سے رشتہ کٹ جاتا ہے ۔ میرے خیال سے ان میں سے بیشتر لڑکیوں کو طوائفوں کے ہاتھوں فروخت کردیا جاتا ہے۔


      شمیمہ کے دسویں کا امتحان اسی مہینے 22فروری کو ہونے والا ہے۔ یومیہ مزدوری کرنے والے عیش الدین شیخ کو  ضلع کے شیبھانگر کے رہنے والے نسیم شیخ کا بہتر رشتہ سامنے آیا  تو اس نے اپنی بیٹی کی تعلیم پر شادی کو فوقیت دی ۔اسکول ٹیچر نے درجنوں مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی ۔مگر وہ شادی کے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوئے۔آخر کار شمیمہ نے والدین کے فیصلے کے خلاف بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور یہ معاملہ پولس کے پاس پہنچا تو پولس کے خوف سے والدین نے شادی کا فیصلہ ترک کردیا۔
      ہریہا پارہ بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر ایم این ساہا نے یقین دہانی کرائی ہے کہ لڑکی کی تعلیم کیلئے ہر ممکن مدد کی جائے گی ۔اسپتال میں داخل شمیمہ سلطان اب صحت یاب ہورہی ہے۔اس نے کہا کہ وہ بہت ہی خوش ہے اور پوری تیاری سے دسوں کا امتحان دینے کو تیار ہے ۔گرچہ وہ ابھی کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہے مگر اس کے چہرے پر فتح کی خوشی نمایاں نظر آرہی ہے ۔ میڈیکل آفیسر نے کہا کہ وہ کافی کمزور ہوگئی ہے مگراس کی حالت نازک نہیں ہے۔

      First published: