انسانی اسمگلنگ کا سب سے زیادہ شکار ہیں دیہی علاقوں میں آباد مسلم طبقات کے بچے اور خواتین
رپورٹ کی مطابق گزشتہ چند سالوں میں بنگال اور آسام کے دیہی علاقوں میں مسلم لڑکیوں کے اغوا اور اس کے بعد انہیں ہریانہ کے جاٹ فیملی میں فروخت کردیے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔
- UNI
- Last Updated: Jul 30, 2016 09:21 PM IST

انسانی اسمگلنگ کی علامی تصویر
کولکاتہ : گزشتہ پانچ سالوں میں ملک میں انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں 38.3فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔رپورٹ کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے شکار سب سے زیادہ دیہی علاقوں میں آباد قبائلی اور پسماندہ مسلم طبقات کے بچے اور خواتین ہوتے ہیں ۔
انسانی اسمگلنگ پر گہری نظر رکھنے والے ایک ماہر کی رپورٹ کی مطابق گزشتہ چند سالوں میں بنگال اور آسام کے دیہی علاقوں میں مسلم لڑکیوں کے اغوا اور اس کے بعد انہیں ہریانہ کے جاٹ فیملی میں فروخت کردیے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ایک سماجی کارکن کے مطابق بنگال اور آسام سے اغوا ہونے والی ہر 10لڑکی میں 7لڑکیوں کا تعلق مسلم طبقے سے ہوتا ہے ۔انہیں ہریانہ ، راجستھان و دیگر ریاستوں میں فروخت کردیا جاتا ہے ۔ان لڑکیوں کو اپنا نام، مذہب اور شناخت تبدیل کرنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے ۔
سروے رپورٹ کے مطابق کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے واقعات 2009میں 2,848 تھے جب کہ 2013میں یہ بڑھ کر 3,940ہوگئے ہیں اور اس کے بر عکس اس معاملے کے حل ہونے کی شرح میں کمی آئی ہے ۔2009میں کل 1279معاملات حل ہوئے تھے جب کہ 2013میں صرف 702معاملات ہی حل ہوسکے ہیں ۔
خیال رہے کہ چند ہفتہ قبل سی بی آئی نے انسانی اسمگلنگ کا انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ 8000ہزار خواتین کو دبئی منتقل کیا گیا ہے اور اس کام کا مرکز دہلی ۔اسی طرح جھار کھنڈ اور بنگال کے قبائلی علاقے سے 5000قبائلی لڑکیوں کے اغوا ہونے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔اس کیس کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ بیشتر معاملات حل نہیں ہوپا تے ہیں ۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں انسانی اسمگلنگ کے 76 فیصد واقعات کے شکار خواتین اور لڑکیاں ہے ۔آسام سی آئی ڈی کی رپورٹ کے مطابق 2012-15کے درمیان 5000بچے غائب ہوئے ہیں ۔اسی طرح چھتس گڑھ، جھاڑ کھنڈ اور بنگال کے قبائلی علاقوں میں بھی لڑکیوں کی گمشدگی کے کئی خوفناک واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔دو ہفتہ قبل ہی 32عورتوں کو برآمد کیا ہے یہ سب کے سب چھتس گڑھ کے قبائلی تھے اور ان میں 18نابالغ لڑکیاں تھیں۔شکتی واہنی کے رشی کانت کی رپورٹ کے مطابق ان ہیں اتر پردیش میں کام دلانے کے نام پر لایا گیا تھا مگر بعد میں انہیں فروخت کردیا گیا ۔