Exclusive: ذاکر نائک کو عمان سے پکڑ کر لایا جائے گا ہندوستان، خفیہ ایجنسیوں نے بچھایا جال: ذرائع

Youtube Video

ذاکر نائک کو عمان میں دو تقریر دینے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ ان کی پہلی تقریر 'قرآن ایک عالمی ضرورت' عمان کی وزارت مذہبی امور کی جانب سے منعقد کیا گیا ہے جو 23 مارچ کو رمضان المبارک کے پہلے دن منعقد ہونی ہے۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Delhi, India
  • Share this:
    نئی دہلی. اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک (Zakir Naik) کو پکڑ کر عمان سے ہندوستان لایا جا سکتا ہے۔ ذاکر نائیک 23 مارچ سے عمان کا دورہ کرنے والے ہیں، اسی دوران ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں انہیں حراست میں لینے کے لیے عمان کے حکام سے پہلے ہی رابطے میں ہیں۔ اعلیٰ انٹیلی جنس ذرائع نے نیوز 18 کو یہ اطلاع دی ہے۔

    ذاکر نائک کو عمان میں دو تقریر دینے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ ان کی پہلی تقریر 'قرآن ایک عالمی ضرورت' عمان کی وزارت مذہبی امور کی جانب سے منعقد کیا گیا ہے جو 23 مارچ کو رمضان المبارک کے پہلے دن منعقد ہونی ہے۔ وہیں دوسری تقریر 'پیغمبر محمد - انسانوں کے لیے ایک رحمت' 25 مارچ کی شام کو سلطان قابوس یونیورسٹی میں مقرر ہے۔

    خبر ہے کہ عمان میں ہندوستانی سفارت خانہ وہاں کی ایجنسیوں کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ انہیں مقامی قوانین کے تحت حراست میں لیا جا سکے اور پھر انہیں ہندوستان بھیج دیا جائے۔ ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کے ذرائع نے بتایا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ مقامی حکام ان کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے انہیں اپنی تحویل میں لے سکتے ہیں۔

    ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے حراست میں لیے جانے کے بعد مزید کارروائی کے لیے قانونی ٹیم بھیجے جانے کا امکان ہے۔ یہ معاملہ وزارت خارجہ نے عمانی سفیر کے ساتھ بھی اٹھایا تھا۔ اسی طرح عمان میں ہندوستانی سفیر نے بھی عمانی وزارت خارجہ کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھایا ہے۔

     

    وہیں حال ہی میں منی لانڈرنگ، اشتعال انگیز تقاریر اوردہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں کے مبینہ ملزم، عالم اسلام کے معروف مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک فیفا ورلڈ کپ کے درمیان قطر بھی پہنچ گئے تھے۔ ہندوستان میں مفرور قراردیے گئے ذاکر نائیک ورلڈ کپ کے دوران مذہبی تقریر کرنے قطر پہنچےتھے۔ قطر کے سرکاری اسپورٹس چینل الکاس کے ٹیلی ویژن پریزینٹرالہاجری نے ٹویٹ کرکے اس بات کی جانکاری دی تھی۔

    پاکستان پولیس نے عمران خان کو بنایا 'دہشت گرد'، سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج اور۔۔۔

    غور طلب ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک، کی تقاریر پحث کے بعد وہ 1990 کی دہائی سے ہندوستان میں سرخیوں میں آئے تھے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کے مطابق سال 2000 کے آغاز میں ان کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیاپر وائرل ہوئیں، جن میں ذاکر نائیک نے کئی قابل اعتراض تقاریر کیں۔ اس کے بعد ذاکر پر اپنے پیروکاروں کو دوسرے مذاہب کے خلاف اکسانے کا الزام لگا۔ ذاکر نائیک پر IRF کے بعد 2016 میں بھارت نے ذاکر نائیک کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن پابندی لگا دی۔ 2017 سے ذاکر نائیک کو مفرور قراردیاگیاہے اور ملائیشیا میں رہ رہے ہیں۔ ذاکر نائیک ملائیشیا کے مستقل شہری ہیں۔ لیکن 'قومی سلامتی' کا حوالہ دیتے ہوئے ان پر 2020 سے ملائیشیا کے اندر تقریر کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ جولائی2016 میں، ذاکر نائیک ہندوستان سے روانہ ہوئے تھے۔جس کے ایک سال بعد، ہندوستان نے ذاکر نائیک کا پاسپورٹ منسوخ کردیا۔ تب ذاکر نائیک نے دعوٰی کیا تھا کہ وہ این آر آئی ہیں۔
    عمران خان کو گرفتاری سےملی راحت، لاہور والےگھر میں گھسی پولیس، تلاشی لی توملے بم اور بندوق

    سب سے پہلے ذاکر نائیک کا نام پہلی بار اس وقت سامنے آیا جب 2016 میں بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں دھماکے ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد گرفتار کیے گئے دہشت گردوں نے بتایا کہ وہ ذاکر کی تقریروں سے متاثر تھے۔ ڈھاکہ میں ہونے والے اس دھماکے میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد ممبئی پولیس کی اسپیشل برانچ نےبھارت میں ذاکر کے خلاف کیس کی تفتیش کی تھی۔ بعد میں این آئی اے نے کیس کی جانچ کی۔

    سعودی ولی عہدشہزادہ محمدبن سلمان نےرمضان میں کچھ پابندیوں اورقواعد کا کیا اعلان، چھڑی بحث

    ابتدائی تحقیقات کے بعد ذاکر اور آئی آر ایف پر پابندی لگا دی گئی۔ ان پر اپنی تقاریرکے ذریعے مذاہب کے درمیان تفرت پھیلانے کا الزام تھا۔ اس کے ساتھ ہی ان کی تقریرسن کر مسلم نوجوان دہشت گرد بن رہے ہیں۔ اس کے بعد ایک رپورٹ بھی سامنےنے 400-500 مردوں اور عورتوں کو دوسرا مذہب تبدیل کرتے ہوئے دیکھ گیاہے۔

    اس کے بعد ذاکر نائیک کے خلاف مہاراشٹر اور کیرالہ میں ایف آئی آر درج کی گئیں۔ ساتھ ہی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ آئی آر ایف کو بیرون ملک سے بھی فنڈز مل رہے ہیں۔ ذاکر کے پاکستان اور یہاں موجود دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات بھی منظر عام پر آئے۔ ہم آپ کو بتادیں کہ ذاکر نائیک کے خلاف ہندوستان میں کئی مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔
    Published by:Sana Naeem
    First published: