مڈ ڈے میل کے بجٹ میں 11,500کروڑ کی کٹوتی پر جماعت اسلامی ہند کی تنقید
مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے چئیرمین نصرت علی نے قومی بجٹ میں تعلیم کے شعبہ کے لئے مختص کی گئی رقم جو گزشتہ سال کے بجٹ کے مقابل میں 6.13 فیصد کم ہے، پر افسوس کا اظہارکیا ہے۔ آپ نے کہا کہ”منسٹر آف ایجوکیشن نے تقریباً 1.03 لاکھ کروڑ روپیوں کا مطالبہ کیا تھا، لیکن 93 ہزار کروڑ روپیوں کا تعلیمی بجٹ منظور کیا گیا ہے۔
- news18 Urdu
- Last Updated: Feb 10, 2021 02:46 AM IST

مڈ ڈے میل کے بجٹ میں 11,500کروڑ کی کٹوتی پر جماعت اسلامی ہند کی تنقید۔ فائل فوٹو
نئی دہلی: مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے چئیرمین نصرت علی نے قومی بجٹ میں تعلیم کے شعبہ کے لئے مختص کی گئی رقم جو گزشتہ سال کے بجٹ کے مقابل میں 6.13 فیصد کم ہے، پر افسوس کا اظہارکیا ہے۔ آپ نے کہا کہ”منسٹر آف ایجوکیشن نے تقریباً 1.03 لاکھ کروڑ روپیوں کا مطالبہ کیا تھا، لیکن 93 ہزار کروڑ روپیوں کا تعلیمی بجٹ منظورکیا گیا ہے۔ ماہرین، سول سوسائٹی اور تعلیم پر بنائی گئی تقریباً تمام کمیٹیوں اور کمیشن کی رائے یہ رہی ہے کہ کم از کم بجٹ کا 10 فیصد حصہ تعلیم پر خرچ ہونا چاہئے۔ یہ رقم 6 فیصد کے آس پاس ہی رہتی ہے۔“ آپ نے مزید کہا کہ کووڈ-19 کے دوران جوشعبے بہت زیادہ متاثر رہے ہیں، ان میں سے ایک تعلیم کا شعبہ ہے۔ کئی پرائیویٹ اسکول بند ہوگئے ہیں۔ خانگی اسکولس کے ٹیچرس معاشی اعتبار سے شدید بحران کا شکار ہیں۔ ایسے تمام متاثرین بجٹ میں اپنے لئے راحت کی توقع کئے ہوئے تھے۔ انھیں بڑی مایوسی ہوئی ہے۔
ہمارے ملک میں بچوں کے تغذیہ اور افزائش کا مسئلہ بڑا سنگین ہے۔ اِس تناظر میں حکومت کا مڈ ڈے میل کے بجٹ میں 11,500 کروڑ کی کٹوتی کرنا بچوں کی حق تلفی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کے بجٹ کی رقم اور منصوبوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت اپنا کردار ایک فلاحی حکومت کے بجائے کارپوریٹ کی دوست کی حیثیت سے ادا کر رہی ہے۔ ملک کا مستقبل اسکولوں میں طے ہوتا ہے نہ کہ منڈی اور کارپوریٹ کے دفتروں میں۔ حکومت 100 نئے سینک (فوجی) اسکولس غیر سرکاری اداروں اور خانگی اسکولوں کے تعاون سے قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ یہ منصوبہ اس سوچ کا غماز ہے کہ حکومت تعلیم کے شعبے میں کارپوریٹس کی ہمت افزائی کرنا چاہتی ہے۔

مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے چئیرمین نصرت علی نے قومی بجٹ میں تعلیم کے شعبہ کے لئے مختص کی گئی رقم جو گزشتہ سال کے بجٹ کے مقابل میں 6.13 فیصد کم ہے، پر افسوس کا اظہارکیا ہے۔
تعلیم کے میدان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی کیفیت قومی صورت حال کے مقابلہ میں بہت ابتر ہے۔ اقلیتوں کے تعلیمی فروغ کے لیےوزارت اقلیتی امور کو بجٹ طے کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک ہزار روپئے کی تخفیف، تشویش کا باعث ہے۔ چار ہزار کروڑ روپئے کا نصف مختلف قسم کے اسکالرشپ کے لیے خرچ ہوتا ہے۔اسکالرشپس کی رقم اور اسے جاری کیے جانے والے عمل پر گزشتہ کئی سالوں سے نظرثانی نہیں ہوئی ہے۔ اسکالرشپس کی رقم موجودہ گرانی کی صورت حال میں اتنی کم ہے کہ اس سے طلبہ کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونا ناممکن ہے۔ 2008سے اسکالرشپ حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد کم و بیش اتنی ہی رہی ہے۔ اِس میں اضافہ کن وجوہات سے نہیں ہو رہا ہے اِس کا جائزہ حکومت اور سول سوسائٹی کو لینا چاہیے۔ اقلیتوں کے تعلیمی معیار کو اونچا اٹھانے کے لیے تعلیمی پالیسی میں اسپیشل ایجوکیشن زون کا پروگرام پیش کیا گیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ اس تعلیمی سال میں چند مقامات پر اس پروگرام کا آغاز ہوجاتا۔ ایسا کوئی پروگرام اس بجٹ میں موجود نہیں ہے۔