نئی دہلی: مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے چئیرمین نصرت علی نے قومی بجٹ میں تعلیم کے شعبہ کے لئے مختص کی گئی رقم جو گزشتہ سال کے بجٹ کے مقابل میں 6.13 فیصد کم ہے، پر افسوس کا اظہارکیا ہے۔ آپ نے کہا کہ”منسٹر آف ایجوکیشن نے تقریباً 1.03 لاکھ کروڑ روپیوں کا مطالبہ کیا تھا، لیکن 93 ہزار کروڑ روپیوں کا تعلیمی بجٹ منظورکیا گیا ہے۔ ماہرین، سول سوسائٹی اور تعلیم پر بنائی گئی تقریباً تمام کمیٹیوں اور کمیشن کی رائے یہ رہی ہے کہ کم از کم بجٹ کا 10 فیصد حصہ تعلیم پر خرچ ہونا چاہئے۔ یہ رقم 6 فیصد کے آس پاس ہی رہتی ہے۔“ آپ نے مزید کہا کہ کووڈ-19 کے دوران جوشعبے بہت زیادہ متاثر رہے ہیں، ان میں سے ایک تعلیم کا شعبہ ہے۔ کئی پرائیویٹ اسکول بند ہوگئے ہیں۔ خانگی اسکولس کے ٹیچرس معاشی اعتبار سے شدید بحران کا شکار ہیں۔ ایسے تمام متاثرین بجٹ میں اپنے لئے راحت کی توقع کئے ہوئے تھے۔ انھیں بڑی مایوسی ہوئی ہے۔
ہمارے ملک میں بچوں کے تغذیہ اور افزائش کا مسئلہ بڑا سنگین ہے۔ اِس تناظر میں حکومت کا مڈ ڈے میل کے بجٹ میں 11,500 کروڑ کی کٹوتی کرنا بچوں کی حق تلفی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کے بجٹ کی رقم اور منصوبوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت اپنا کردار ایک فلاحی حکومت کے بجائے کارپوریٹ کی دوست کی حیثیت سے ادا کر رہی ہے۔ ملک کا مستقبل اسکولوں میں طے ہوتا ہے نہ کہ منڈی اور کارپوریٹ کے دفتروں میں۔ حکومت 100 نئے سینک (فوجی) اسکولس غیر سرکاری اداروں اور خانگی اسکولوں کے تعاون سے قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ یہ منصوبہ اس سوچ کا غماز ہے کہ حکومت تعلیم کے شعبے میں کارپوریٹس کی ہمت افزائی کرنا چاہتی ہے۔

مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے چئیرمین نصرت علی نے قومی بجٹ میں تعلیم کے شعبہ کے لئے مختص کی گئی رقم جو گزشتہ سال کے بجٹ کے مقابل میں 6.13 فیصد کم ہے، پر افسوس کا اظہارکیا ہے۔
حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی 2020 بڑے عزائم کے ساتھ پیش کی ہے۔ 10 سالوں میں ہم ملک کو تعلیم کے میدان میں بین الاقوامی سطح پر ایک نمایاں مقام پر لے جانا چاہتے ہیں۔ او ر 20 سالوں میں تعلیم کے شعبے میں ’ویشوگرو‘ (عالمی رہ نما) بننے کا بلند عزم رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک کے انسانی وسائل یقیناً اس نشانے کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،لیکن اس کے لیے حکومت مثبت اقدامات کرے۔ موجودہ بجٹ اور منصوبہ تعلیمی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں کر سکتا۔ پورے ملک سے صرف پندرہ ہزار اسکولوں کو ان کے معیار کیبہتری کے لیے منتخب کیے جانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ تعداداسکولوں کی تقریباً ایک فی صد ہے۔ہائیر ایجوکیشن میں داخلے کی شرح تقریباً 26 فی صد ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی اسے دس سالوں میں پچاس فی صد تک لانا چاہتی ہے۔ لیکن اس کے لیے بجٹ میں کوئی خاص منصوبہ نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ہائیر ایجوکیشن میں صرف ان شعبوں کو فروغ دینا چاہیتی ہے جن کا تعلق ’مختلف ہنر‘ (Skills) سے ہے۔ تاکہ طلبہ ہنر مند بنیں اور کارپوریٹ کے کام آئیں۔ اس لیے Leh میں جاپان کے تعاون سے’مختلف ہنر‘ کو فروغ دینے کے لیےیونی ورسٹی کے قیامکا منصوبہ ہے۔ جب کہ نئی تعلیمی پالیسی نے سماجی علوم اور طلبہ میں سوشل اسکلس Social Skills کے فروغ کی بھی بات کہی ہے۔ اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ منصوبہ یہ بجٹ پیش نہیں کرسکا۔
تعلیم کے میدان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی کیفیت قومی صورت حال کے مقابلہ میں بہت ابتر ہے۔ اقلیتوں کے تعلیمی فروغ کے لیےوزارت اقلیتی امور کو بجٹ طے کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک ہزار روپئے کی تخفیف، تشویش کا باعث ہے۔ چار ہزار کروڑ روپئے کا نصف مختلف قسم کے اسکالرشپ کے لیے خرچ ہوتا ہے۔اسکالرشپس کی رقم اور اسے جاری کیے جانے والے عمل پر گزشتہ کئی سالوں سے نظرثانی نہیں ہوئی ہے۔ اسکالرشپس کی رقم موجودہ گرانی کی صورت حال میں اتنی کم ہے کہ اس سے طلبہ کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونا ناممکن ہے۔ 2008سے اسکالرشپ حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد کم و بیش اتنی ہی رہی ہے۔ اِس میں اضافہ کن وجوہات سے نہیں ہو رہا ہے اِس کا جائزہ حکومت اور سول سوسائٹی کو لینا چاہیے۔ اقلیتوں کے تعلیمی معیار کو اونچا اٹھانے کے لیے تعلیمی پالیسی میں اسپیشل ایجوکیشن زون کا پروگرام پیش کیا گیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ اس تعلیمی سال میں چند مقامات پر اس پروگرام کا آغاز ہوجاتا۔ ایسا کوئی پروگرام اس بجٹ میں موجود نہیں ہے۔
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔