اپنا ضلع منتخب کریں۔

    لکھیم پور کیس: SIT کی رپورٹ سے یو پی پولیس کو ہوئی پریشانی، جانبداری کے لگ رہے ہیں الزام

    آشیش مشرا کے خلاف 4 اکتوبر کو تیکونیا تھانے میں جگ جیت سنگھ نے جو تحریر دی تھی اُس کے مطابق ان دفعات کو FIR درج کرتے وقت ہی لگایا جانا چاہیے تھا۔ تحریر میں کہا گیا ہے کہ آشیش مشرا اپنے حامیوں کے ساتھ فائرنگ کرتے ہوئے کسانوں کو اپنی گاڑی سے روندتے ہوئے نکل گئے۔

    آشیش مشرا کے خلاف 4 اکتوبر کو تیکونیا تھانے میں جگ جیت سنگھ نے جو تحریر دی تھی اُس کے مطابق ان دفعات کو FIR درج کرتے وقت ہی لگایا جانا چاہیے تھا۔ تحریر میں کہا گیا ہے کہ آشیش مشرا اپنے حامیوں کے ساتھ فائرنگ کرتے ہوئے کسانوں کو اپنی گاڑی سے روندتے ہوئے نکل گئے۔

    آشیش مشرا کے خلاف 4 اکتوبر کو تیکونیا تھانے میں جگ جیت سنگھ نے جو تحریر دی تھی اُس کے مطابق ان دفعات کو FIR درج کرتے وقت ہی لگایا جانا چاہیے تھا۔ تحریر میں کہا گیا ہے کہ آشیش مشرا اپنے حامیوں کے ساتھ فائرنگ کرتے ہوئے کسانوں کو اپنی گاڑی سے روندتے ہوئے نکل گئے۔

    • Share this:
      لکھنو: لکھیم پور کھیری تشدد (Lakhimpur Kheri Case) معاملے میں تشکیل دی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم (SIT) کی رپورٹ نے یو پی پولیس کو پریشان کردیا ہے۔ مملکتی وزیر داخلہ اجئے مشرا ٹینی کے بیٹے آشیش مشرا پر اب قتل کی کوشش جیسے گمبھیر دفعات لگادی گئی ہیں۔ اگر آشیش کو بچانے کی کوشش نہ ہوئی ہوتی تو یوپی پولیس کو ایسے دن نہ دیکھنے پڑے ہوتے۔ لکھیم پور کھیری کی تیکونیا پولیس نے اگر صرف FIR کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہوتا تو معاملہ اس قدر یکطرفہ یا جانبدار نہیں لگتا۔ اب ایس آئی ٹی نے پولیس کی اُس غلطی میں بہتری کی ہے اور ایف آئی آر کے مطابق الزام کی دفعات بھی بڑھائی ہیں۔

      یوپی پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل وکرم سنگھ نے بتایا کہ CRPC کی دفعات 154 کہتی ہے کہ FIR جیسی ہو دفعات ویسی ہی لگائی جائے۔ متاثرہ نے جو تحریر (درخواست) پولیس کو دی ہے اُسی کے مطابق FIR میں ملزم پر دفعات لگائی جائیں گی۔ ایف آئی آر درج کرتے وقت اس میں کسی طرح کی تبدیلی کرنے کا حق پولیس کو نہیں ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جانچ کے بعد ثبوتوں کی بنیاد پر دفعات کم یا زیادہ کی جاسکتی ہیں۔ یہ پولیس کے دائرے میں آتا ہے۔

      پولیس پر لگ رہا جانبداری کا الزام
      لیکن، لکھیم پور تشدد معاملے میں پولیس نے یہیں پر بڑی غلطی کردی۔ اسے ہی جانبدار کہا جارہا ہے۔ ایس آئی ٹی نے کہا ہے کہ IPC کی دفعہ 279، 338 اور 304 A کی وجہ 307،326،34 اور آرمس ایکٹ کی دفعات 3/25/30 لگائی جائیں۔ آئی پی کی دفعہ 307 جان سے مارنے کی کوشش، 326 خطرنا ہتھیار یا وسائل سے گمبھیر ٹھیس پہنچانا، 34 کئی افراد کے ساتھ مل کر ایک جیسا جرم کرنا اور آرمس ایکٹ کی دفعہ 3/25/30 لائسنس والے ہتھیار کا غلط استعمال کرنا ہے۔

      آشیش مشرا کے خلاف 4 اکتوبر کو تیکونیا تھانے میں جگ جیت سنگھ نے جو تحریر دی تھی اُس کے مطابق ان دفعات کو FIR درج کرتے وقت ہی لگایا جانا چاہیے تھا۔ تحریر میں کہا گیا ہے کہ آشیش مشرا اپنے حامیوں کے ساتھ فائرنگ کرتے ہوئے کسانوں کو اپنی گاڑی سے روندتے ہوئے نکل گئے۔ اس میں چار کی کی موت ہوگئی اور کئی شدید طور پر زخمی ہوگئے۔ تحریر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آشیش مشرا نے غنڈہ گردی کی ہے، اتنا ہی نہیں، تحریر میں جگ جیت سنگھ نے صاف صاف لکھا ہے کہ آشیش مشرا نے منصوبہ بند طریقے سے سازش رچی اور اُس پر عمل کیا۔

      لکھیم پور کھیری کی تیکونیا پولیس نے تحریر میں بتائے گئے ان الزاموں کو نظر انداز کردیا۔ اُس نے آشیش مشرا پر دفعہ 307 کی جگہ 279، پھر 326 کی جگہ 338 اور دفعہ 341 کی جگہ 304A لگایا ہے۔ تحریر میں گولی چلائے جانے کا ذکر ہے لیکن، لکھیم پور کھیری پولیس نے اسے بالکل ہی نظرانداز کردیا۔ اُس نے فائرنگ کی کوئی بھی دفعہ ایف آئی آر میں نہیں لگائی گئی۔ اتنا ہی نہیں، کھیری پویس نے قتل کید فعہ 302 کے ساتھ غیر ارادتاً قتل کی دفعہ 304A بھی لگادی تھی۔ اب ایس آئی ٹی نے دفعہ 304A ہٹادی ہے اور دوسری دفعات جوڑ دی ہیں۔

      ظاہر ہے جو کام 4 اکتوبر کو ہونا چاہیے تھا وہ کام 13 دسمبر کو ہوا۔ تقریباً ڈھائی مہینے میں فرق یہ آیا ہے کہ پہلے دفعات جوڑنے کے بعد معاملے کی جانچ ہوئی ہوتی اور اب جانچ کے بعد دفعات بڑھائی گئی ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ میں کریمل کیسیز کے بڑے وکیل آئی بی سنگھ نے کہا کہ تحریر میں لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر ہی دفعات لگائی جانی چاہیے۔ اگر پولیس اسے نظرانداز نہ کرے تو آگے کی جانچ بھی صحیح ہوتی ہے۔ وکرم سنگھ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ایف آئی آر میں جس کا بھی نام ہوتا ہے اُس سے پوچھ تاچھ ضرور ہونی چاہیے۔


      قومی، بین الاقوامی اور جموں وکشمیر کی تازہ ترین خبروں کےعلاوہ تعلیم و روزگار اور بزنس کی خبروں کے لیے نیوز18 اردو کو ٹویٹر اور فیس بک پر فالو کریں ۔
      Published by:Shaik Khaleel Farhaad
      First published: