منی پور تشدد: 10 کلو میٹر دور ایئر پورٹ پہنچنے میں لگے تین دن، یوپی کے طلبہ نے کہا: نہ کھانا ہی ملا ، نہ پانی

منی پور تشدد: 10 کلو میٹر دور ایئر پورٹ پہنچنے میں لگے تین دن، یوپی کے طلبہ نے کہا: نہ کھانا ہی ملا ، نہ پانی ۔ تصویر : PTI

منی پور تشدد: 10 کلو میٹر دور ایئر پورٹ پہنچنے میں لگے تین دن، یوپی کے طلبہ نے کہا: نہ کھانا ہی ملا ، نہ پانی ۔ تصویر : PTI

Manipur Violence : منی پور تشدد میں پھنسے اترپردیش کے طلبہ کا ایک گروپ اتوار کو ہوائی اڈہ پر پہنچنے میں کامیاب رہا اور کولکاتہ جانے والی فلائٹ میں سوار ہوگیا ۔ نیوز18 سے بات چیت کرتے ہوئے ان میں سے کچھ طلبہ نے بتایا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے انہیں کھانا پانی بھی نہیں مل پا رہا تھا۔

  • News18 Urdu
  • Last Updated :
  • Lucknow | Uttar Pradesh
  • Share this:
    لکھنو: منی پور تشدد میں پھنسے اترپردیش کے طلبہ کا ایک گروپ اتوار کو ہوائی اڈہ پر پہنچنے میں کامیاب رہا اور کولکاتہ جانے والی فلائٹ میں سوار ہوگیا ۔ نیوز18 سے بات چیت کرتے ہوئے ان میں سے کچھ طلبہ نے بتایا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے انہیں کھانا پانی بھی نہیں مل پا رہا تھا۔ اپنے تجربہ کو شیئر کرتے انہوں نے کہا کہ اس علاقہ میں بجلی بھی بند تھی ۔ طلبہ نے کہا کہ وہاں حالات انتہائی خراب ہے ۔ این آئی ٹی منی پور سے بی ٹیک کررہے ایک طالب علم جتیندر کمار نے پیر کی دوپہر اپنے ہی بیچ کے ساتھ دیگر طلبہ کے ساتھ اڑان بھرنے پر اپنے ستاروں کا شکریہ ادا کیا ۔ فرسٹ ایئر کے طالب علم جتیندر اترپردیش کے بلیا ضلع کا رہنے والا ہے ۔ حالانکہ یوپی کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے محکمہ داخلہ کو تشدد سے متاثر منی پور میں پھنسے طلبہ کی مدد کرنے کی ہدایت دی ہے۔

    جتیندر نے کہا کہ ہم ان کچھ خوش قسمت لوگوں میں سے ایک ہیں، جو ہوائی اڈہ تک پہنچنے میں کامیاب رہے ۔ ہمیں 10 کلومیٹر کی دوری طے کرنے میں تقریبا تین دن لگ گئے ۔ پوری پلاننگ کے بعد اور مقامی لوگوں کی مدد سے ہم کسی طرح پیر کی صبح ہوائی اڈہ پر پہنچنے میں کامیاب رہے ۔ اوپر والے کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ہم اب بھی زندہ ہیں ۔ انہوں نے اپنے کالج سے ہوائی اڈہ تک کے دس کلومیٹر کے سفر کو اپنی زندگی کا سب سے طویل سفر بتایا ۔

    گروپ کے ایک دیگر طالب علم نے کہا یہ کہ سب تقریبا ایک ہفتہ پہلے شروع ہوا۔ اس میں پہلا واقعہ ، جس میں بشنو پور ضلع کے پھوگاکچاو ایکھائی اوانگ لیکائی میں ایک گاڑی میں آگ لگادی گئی تھی ۔ جوابی کارروائی میں حریف گروپ نے اراکین نے چورا چاند پور ضلع میں ایک گاڑی میں آگ لگادی اور پھر جلد ہی حالات خراب ہوگئے ۔

    اس نے بتایا کہ شروع میں ہم نے سوچا تھا کہ ہم کالج کے احاطہ میں محفوظ ہیں، لیکن جلد ہی ہمیں احساس ہوا کہ ہم پھنس گئے ہیں ۔ ان کے بیچ کے ساتھی ابھیشیک کمار ایک دیگر بی ٹیک طالب علم ہیں، جو یوپی کے گورکھپور سے آتے ہیں، نے کہا کہ کالج انتظامیہ مدد گار ہے، لیکن ان کی ایک حد ہے ۔ سبھی ضروری خدمات بند ہونے کی وجہ سے طلبہ کو کھانا کھلانا ان کیلئے مشکل ہورہا تھا ۔

    یہ بھی پڑھئے: سونیا گاندھی کے 'خودمختاری' والے بیان پر بی جے پی نے کھٹکھٹایا الیکشن کمیشن کا دروازہ


    یہ بھی پڑھئے: پہلوانوں کا احتجاج سولہویں دن میں داخل، جنتر منترپرکسانوں نے توڑ دیں رکاوٹیں، آگےہوگاکیا؟


    ایک دیگر طالب علم نے بتایا کہ ایک وقت تھا جب پینے کیلئے پانی نہیں تھا ۔ ہمیں صرف ایک مرتبہ کھانا دیا جاتا تھا ۔ پچھلے چھ دن ہماری زندگی کے سب سے مشکل ایام تھے ۔ ہم نے جو تجربہ کیا، اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ طلبہ نے تقریبا تین دن پہلے ہار مان لی تھی ۔ کوئی کھانا نہیں، کوئی پیسہ نہیں، کوئی انٹرنیٹ نہیں، کوئی بجلی نہیں اور کوئی مدد نہیں، ہم نے تقریبا تین دن پہلے امید چھوڑ دی تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ہم نے کالج انتظامیہ سے اپیل کی کہ ہمیں ایک گاڑی کی ضرورت ہے، جو ہمیں ہوائی اڈہ پر تک پہنچا دے ۔ کافی وقت تک درخواست کرنے کے بعد کالج انتظامیہ آخر میں راضی ہوگئی اور ہمیں ہوائی اڈہ تک پہنچنے کیلئے ایک ٹیمپو ٹریولر فراہم کیا ۔ حالانکہ ہمیں ہوائی اڈہ تک پہنچنے میں تقریبا تین دن لگ گئے، جو کالج سے صرف دس کلومیٹر کی دوری پر تھا ۔
    Published by:Imtiyaz Saqibe
    First published: