اپنا ضلع منتخب کریں۔

    42 کتابوں کی مصنفہ نواب سلطان جہاں بیگم کو ان کے ہی شہر میں کیا گیا فراموش

    نواب سلطان جہاں بیگم کی ولادت 9 جولائی 1858 کو بھوپال میں ہوئی اور 12 مئی 1930 کو بھوپال میں ان کا انتقال ہوا اور انہیں بھوپال کی صوفیا مسجد کے احاطہ میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔

    نواب سلطان جہاں بیگم کی ولادت 9 جولائی 1858 کو بھوپال میں ہوئی اور 12 مئی 1930 کو بھوپال میں ان کا انتقال ہوا اور انہیں بھوپال کی صوفیا مسجد کے احاطہ میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔

    نواب سلطان جہاں بیگم کی ولادت 9 جولائی 1858 کو بھوپال میں ہوئی اور 12 مئی 1930 کو بھوپال میں ان کا انتقال ہوا اور انہیں بھوپال کی صوفیا مسجد کے احاطہ میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔

    • Share this:
    بھوپال: زندہ قومیں نہ صرف اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں کو یاد کرتی ہیں بلکہ اسے آگے بڑھانے کا کام کرتی ہیں۔ مسلم کمیونٹی کے ذریعہ اسلاف کو فراموش کرنے اور حکومت کی بے حسی کا رونا تو بہت رویا جاتا ہے، لیکن خود کی بے حسی پر اس کی نظر نہیں جاتی ہے۔ 7 جولائی کو ممتاز مجاہدین آزادی پروفیسر مولانا برکت اللہ بھوپالی کو فراموش کیا گیا اور اب ریاست بھوپال کی آخری خاتون فرمانروا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی خاتون چانسلر نواب سلطان جہاں بیگم کو بھی ان کی یوم ولادت پر ان کے ہی شہر میں فراموش کردیا گیا ہے۔
    نواب سلطان جہاں بیگم کی ولادت 9 جولائی 1858 کو بھوپال میں ہوئی اور 12 مئی 1930 کو بھوپال میں ان کا انتقال ہوا اور انہیں بھوپال کی صوفیا مسجد کے احاطہ میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔ نواب سلطان جہاں بیگم 1901 میں ریاست بھوپال کے تخت متمکن ہوئی تھیں اور انہوں نے کامیابی کے ساتھ 26 سال حکومت کی تھی۔ وہ ایک کامیاب ایڈمنٹسریٹر کے ساتھ بہترین ادیب اور انشا پرداز بھی تھیں۔

    نواب سلطان جہاں بیگم نے اپنے عہد میں بھوپال میں تعلیم، تاریخ نویسی اوراردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ بے مثل ہیں۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر 42 کتابیں تصنیف کی تھیں ،اگر اس میں ان کی تالیف کردہ کتابوں کو شامل کرلیا جائے تو اس کی تعداد 60 سے زیادہ ہوتی ہیں۔ 1920 میں جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنی تو وہ اس کی نہ صرف پہلی خاتون چانسلر بنیں بلکہ وہ تاحیات چانسلر رہی ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی انہوں نے سلطانیہ اسکول، سلطان جہاں منزل کے علاوہ اپنے بیٹوں کے نام پر ہوسٹل تعمیر کروائے تھے اور علی گڑھ میں سرسید احمد خان کے تعلیمی مشن کی آبیاری کے لئے مالی تعاون بھی دیا۔ مگر افسوس آج ان کی یوم ولادت پر بھوپال میں کسی تقریب کا انعقاد نہیں کیا گیا۔ بزم سحر کے چند افراد کے ذریعہ ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کرکے رسم ادائیگی ضرور کی گئی۔

    نواب سلطان جہاں بیگم کی ولادت 9 جولائی 1858 کو بھوپال میں ہوئی اور 12 مئی 1930 کو بھوپال میں ان کا انتقال ہوا اور انہیں بھوپال کی صوفیا مسجد کے احاطہ میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔
    نواب سلطان جہاں بیگم کی ولادت 9 جولائی 1858 کو بھوپال میں ہوئی اور 12 مئی 1930 کو بھوپال میں ان کا انتقال ہوا اور انہیں بھوپال کی صوفیا مسجد کے احاطہ میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔


    ممتاز ادیب ضیا فاروقی کہتے ہیں کہ اب اس سے زیادہ ستم ظریفی اورکیا ہو سکتی ہے کہ ایک ایسی خاتون فرمانروا جس نے حکمرانی کے ساتھ تاریخ، تہذیب و ثقافت اور اردو زبان کی آبیاری میں اپنا خون جگر صرف کیا، اس کو ہی اس کے شہر میں فراموش کردیا گیا ہے۔ بزم سحرکا شکریہ کہ چند افراد ہی سہی کم ازکم ان کی قبر پرآکر فاتحہ خوانی تو کی۔ انہوں نے ریاست بھوپال کی ہمہ جہت ترقی اور تعلیمی ترقی کے لئے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ بے مثل ہے۔ اس کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فروغ کے لئے انہوں نے قربانیاں دی ہیں، اس کا ثانی آج تک پیدا نہیں ہوسکا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاحیات چانسلر رہی ہیں اور اپنی حیات میں ہی اپنے بیٹے نواب حمید اللہ خان کو اپنا وارث بنایا  اور بتایا کہ حکمرانی کیسے کی جاتی ہے۔ آج دنیا میں ویمنس امپاورمنٹ کی بات کی جاتی ہے، لیکن انہوں نے 1910 میں ہی بھوپال میں لیڈیز کلب کو قام کردیا تھا اور مولانا آزاد کی بہن اس کی سکریٹری رہی ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں۔

    Madhya Pradesh کے اسکولی نصاب میں طلبا کو رام چرت مانس پڑھانے کا فیصلہ
    بزم سحر کے صدر سراج محمد خان کہتے ہیں کہ ہم نیوز 19 اردو کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ ہمیں اس کی خبر معلوم ہوئی اور ہم لوگ یہاں پر فاتحہ خوانی کے لئے حاضر ہوئے۔ نواب سلطان جہاں بیگم کا تعلیم نسواں اور اردو زبان ادب کے فروغ کے لئے جو کارنامہ ہے وہ کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آج ان کی یوم ولادت پرکسی تقریب کا انعقاد نہیں کیا جانا افسوسناک ہے۔ حالانکہ ان کے وارثین اور شاہی اوقاف کو اس جانب توجہ دینا چاہئے، اگر وہ نہیں کرتے ہیں تو ہم کوشش کریں گے کہ آئندہ سال میں قومی سمینار کا انعقاد کیا جا سکے۔

    صوفیا مسجد کے نگراں حاجی سمیر کہتے ہیں کہ نواب سلطان جہاں کی ولادت کا دن ہو یا انتقال کا نیوز ایٹین کی ٹیم جب آتی ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ آج کچھ ہے۔ سلطان جہاں کی خدمت میں ہمارے بزرگوں نے وقت گزارا تھا اور آج ہم اس مسجد کی جس کے احاطے میں نواب سلطان جہاں بیگم جنہیں ہم لوگ سرکار اماں کہتے ہیں، اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔جس نے سب کچھ بھوپال اور اردو ادب کے لئے قربان کردیا، جب اس کو فراموش کیا جاتا ہے، تو تکلیف ہوتی ہے۔ لوگ بیدار ہوں تو صورت بدل سکتی ہے۔
    Published by:Nisar Ahmad
    First published: