Sedition Law: مرکز غداری کے قانون پر دوبارہ غور کرنے تیار، پی ایم مودی کی ہدایات پر آئے گی نئی تبدیلی
تصویر: سپریم کورٹ
لائیو لا کی ایک رپورٹ کے مطابق مرکز نے حلف نامہ میں یہ بات کہی ہے کہ ملک میں ماہرین قانون، ماہرین تعلیم، دانشوروں اور شہریوں کے ذریعہ عوامی ڈومین میں اس مسئلہ پر مختلف آراء موجود ہیں۔ حلف نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت ایک ایسے وقت میں ’نوآبادیاتی شناخت‘ کو ختم کے لیے کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جب قوم آزادی کے 75 سال مکمل کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
مرکزی حکومت نے پیر کے روز سپریم کورٹ (Supreme Court) کو بتایا کہ اس نے ملک میں قانونِ بغاوت (sedition law) کی دفعات کا ازسرنو جائزہ لینے اور اس پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو اس نے گزشتہ ہفتے عدالت میں اپنے موقف سے الگ ہو گیا تھا۔
مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو (Union Law Minister Kiren Rijiju) نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ موقف میں تبدیلی وزیر اعظم نریندر مودی (Prime Minister Narendra Modi) کی موجودہ دور میں نوآبادیاتی قانون کی ضرورت کا ازسرنو جائزہ لینے کی ہدایات کے بعد آئی ہے۔ رجیجو نے کہا کہ وزیر اعظم نے فرسودہ قانون کو ہٹانے پر زور دیا۔
مرکز نے سپریم کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ پرانے قوانین کا جائزہ لینا اور منسوخ کرنا ایک جاری عمل ہے اور حکومت ہند نے 15-2014 سے پہلے ہی 1500 قوانین کو ختم کر دیا ہے۔ مرکز نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ غداری کا مقدمہ اس وقت تک نہ اٹھائے جب تک کہ حکومت ہند کی جانب سے آئینی طور پر اجازت یافتہ فورم کے سامنے دفعہ 124 اے پر نظر ثانی کی مشق نہیں کی جاتی۔
حکومت نے مبینہ طور پر سپریم کورٹ میں صحافیوں، کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں کی طرف سے دائر کئی عرضیوں کے سلسلے میں ایک حلف نامہ جمع کرایا جس میں تعزیرات ہند کی سکشن 124 اے (Section 124A) کی آئینی جواز کو چیلنج کیا گیا ہے جو کہ بغاوت کو جرم قرار دیتا ہے۔
لائیو لا کی ایک رپورٹ کے مطابق مرکز نے حلف نامہ میں یہ بات کہی ہے کہ ملک میں ماہرین قانون، ماہرین تعلیم، دانشوروں اور شہریوں کے ذریعہ عوامی ڈومین میں اس مسئلہ پر مختلف آراء موجود ہیں۔ حلف نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت ایک ایسے وقت میں ’نوآبادیاتی شناخت‘ کو ختم کے لیے کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جب قوم آزادی کے 75 سال مکمل کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
یہ بیان گزشتہ ہفتے کے روز عدالت میں حکومت کی طرف سے بغاوت کے قوانین کے دفاع سے یو ٹرن کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے بعد مرکز نے بغاوت سے متعلق تعزیری قانون اور آئینی بنچ کے 1962 کے فیصلے کا دفاع کیا تھا جس کی درستی کو برقرار رکھا گیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ قوانین نے تقریباً چھ دہائیوں سے ،وقت کی کسوٹی کا مقابلہ کیا ہے اور اس کے غلط استعمال کی مثالیں کبھی بھی نظر ثانی کا جواز نہیں بنیں گی۔
چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس سوریہ کانت اور ہیما کوہلی پر مشتمل تین ججوں کی بنچ نے 5 مئی کو کہا تھا کہ وہ اس بات پر دلائل سنے گی کہ آیا بغاوت پر نوآبادیاتی دور کے تعزیری قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو 1962 کے دوبارہ غور کرنے کے لیے بڑی بنچ کے پاس بھیجا جا سکتا ہے یا نہیں۔
Published by:Mohammad Rahman Pasha
First published:
سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔