اپنا ضلع منتخب کریں۔

    بابری مسجد انہدام فیصلہ: سی بی آئی عدالت کا فیصلہ ناانصافی کی تاریخ میں ایک مثال: مسلم پرسنل لا بورڈ

    بابری مسجد انہدام فیصلہ: سی بی آئی عدالت کا فیصلہ ناانصافی کی تاریخ میں ایک مثال: مسلم پرسنل لا بورڈ

    بابری مسجد انہدام فیصلہ: سی بی آئی عدالت کا فیصلہ ناانصافی کی تاریخ میں ایک مثال: مسلم پرسنل لا بورڈ

    بابری مسجد کے انہدام مقدمے میں تمام ملزمین کو بری کئے جانے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنر ل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی نے کہا کہ یہ ایک بے بنیاد ججمینٹ ہے جس میں شہادتوں کو نظرانداز کیا گیا ہے اور قانون کا بھی پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔

    • News18 Urdu
    • Last Updated :
    • Share this:
      نئی دہلی: بابری مسجد کے انہدام مقدمے میں تمام ملزمین کو بری کئے جانے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنر ل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی نے کہا کہ یہ ایک بے بنیاد ججمینٹ ہے جس میں شہادتوں کو نظرانداز کیا گیا ہے اور قانون کا بھی پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔

      انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اسی ذہنیت کا آئینہ دار ہے جو ذہنیت حکومت کی ہے اور جس کا اظہار بابری مسجد کیس میں سپریم کورٹ کے ججوں نے کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے تو اتنا کیا کہ اپنے فیصلہ میں کئی واضح حقیقتوں کو تسلیم کیا پھر جو ججمینٹ دیا وہ انصاف کے چہرہ پر بڑاسیاہ دھبہ ہے، سی بی آئی کی عدالت نے سارے مجرمین کو بری کردیا جبکہ پورے ملک میں ویڈیو اور تصویریں موجود ہیں جو صاف بتاتی ہیں کہ مجرم کون ہے اور بابری مسجد کی شہادت کی سازش اور کارروائی میں کون لوگ شریک ہیں۔
      مولانا محمد ولی رحمانی نے یہ بھی کہا کہ 1994ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے بنچ نے واضح کیا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت ایک قومی شرمندگی ہے اور قانون کی حکمرانی اور آئینی طریقہ کار کے لئے بڑا دھچکا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے یہ بھی کہا تھا کہ پانچ سو سالہ پرانا ڈھانچہ توڑدیا گیا جس کی حفاظت کی ذمہ داری اسٹیٹ گورنمنٹ کے ہاتھوں میں تھی۔


      مولانا محمد ولی رحمانی نے یہ بھی کہا کہ 1994ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے بنچ نے واضح کیا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت ایک قومی شرمندگی ہے اور قانون کی حکمرانی اور آئینی طریقہ کار کے لئے بڑا دھچکا ہے۔
      مولانا محمد ولی رحمانی نے یہ بھی کہا کہ 1994ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے بنچ نے واضح کیا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت ایک قومی شرمندگی ہے اور قانون کی حکمرانی اور آئینی طریقہ کار کے لئے بڑا دھچکا ہے۔


      جنرل سکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ لوگوں کو یادہوگا کہ بابری مسجد کی شہادت کے عظیم حادثہ کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ تعصب کی لہر چل پڑی اور بڑے پیمانہ پر مسلمانوں کے جان و مال کا نقصان ہؤا۔ سی بی آئی عدالت کا یہ فیصلہ مسجد کی شہادت کی ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالتا، تو کیا وہ سارا مجمع اور وہ سارے لوگ جو بی جے پی میں بہت بڑی حیثیت کے مالک رہے ہیں مسجد کو شہید نہیں کیا؟ یا کسی غیبی طاقت نے مسجد کی عمارت کو نیست و نابود کردیا؟ اور یہ سارے مجرمین جو مسجد کو شہید کرنے میں شریک تھے اور جنہوں نے مسجد کے گرانے کی سازش کی وہ سب وہاں صرف تماشہ دیکھ رہے تھے؟ یہ فیصلہ ناانصافی کی تاریخ میں ایک مثال کی حیثیت سے پیش کیا جائیگا۔ جنرل سکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ نے یہ بھی کہا کہ اس مرحلہ میں سی بی آئی کو ایمانداری ظاہر کرنی چاہئے اور اوپر کی عدالت میں مقدمہ دائر کرنا چاہئے۔
      Published by:Nisar Ahmad
      First published: